امریکا کی ریاست نیویارک میں منعقد ہونے والا پہلا مس سری لنکا مقابلۂ حسن کا اختتام جھگڑے پر ہوا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق نیویارک کے اسٹیٹن آئی لینڈ میں منعقد اس تقریب میں 300 سے زائد مہمان شریک تھے۔
تاہم شرکاء میں تلخ کلامی کی وجہ تو معلوم نہ ہوسکی لیکن مہمانوں کے دو گروپس میں ہونے والے اس جھگڑے میں خواتین بھی شامل ہوگئیں اور بات اتنی بڑھ گئی کہ منتظمین کو مقابلۂ حسن روکنا پڑا اور اس میں کچھ املاک کو بھی نقصان پہنچا۔
مقابلہ حسُن کے منتظمین کے مطابق مقابلے میں شامل 14 امیدواروں میں سے کوئی بھی اس لڑائی میں شامل نہیں تھا۔ تقریب کے چند مہمان آپس میں لڑ پڑے تھے۔
مذکورہ جھگڑے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو صارفین نے تقریب کے شرکاء کی ہنگامہ آرائی کو سری لنکا کے لیے شرمندگی کا باعث قرار دیا۔
ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو ای صارف کا کہنا تھا کہ یہ ویڈیو انہیں سری لنکا کے کسی گاؤں کی یاد دلا رہا ہے جہاں ہر تقریب کا اختتام اسی طرح لڑائی جھگڑے پر ہوتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مقابلہ حُسن کے منتظمین میں شامل سوجانی فرنینڈو کا کہنا ہے کہ اس جھگڑے کے باعث سری لنکن کے لیے کوئی رائے قائم نیں کرنی چاہئے۔ سری لنکن اچھے لوگ ہیں۔ یہ صرف ایک لڑائی تھی جو کسی کے بھی درمیان ہوسکتی ہے، بچے بھی لڑتے ہیں۔ اس سے کسی بھی ثقافت یا کسی بھی قومیت کو جوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ سری لنکا میں صرف اسی قسم کے لوگ ہوں‘۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جھگڑے کے سلسلے میں مشکوک مہمانوں کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں ہیں جن سے تفتیش جاری ہے تاہم ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس مسز سری لنکا کے مقابلے میں اس وقت ڈرامائی صورت حال پیدا ہوگئی تھی جب فاتح خاتون پشپیکا ڈی سلوا کو تاج پہنانے کے بعد سابق مسز سری لنکا نے ان کا تاج یہ کہہ اتار لیا کہ وہ طلاق یافتہ خاتون ہیں جب کہ یہ مقابلہ صرف شادی شدہ خواتین کا ہے۔
سابق مسز سری لنکا نے تاج رنراپ کو پہنا دیا تاہم بعد میں پشپیکا ڈی سلوا نے فیس بک پوسٹ میں بتایا کہ ان کی شوہر کے ساتھ علیحدگی ہوئی ہے طلاق نہیں اور یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔
مقابلے کے منتظمین نے تحقیقات کے بعد تاج دوبارہ پشپیکا ڈی سلوا کو دیدیا اور معذرت بھی کی۔ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہ بہت جلدبازی میں مکمل معلومات نہ ہونے کے باعث ہوا۔ تحقیقات میں پشپیکا ڈی سلوا سچی ثابت ہوئیں۔
Comments are closed.