عاصمہ شیرازی کا کالم: سرکس، جانور اور ہنٹر
ایک دن ایسا آیا کہ ماسٹر کے اشاروں کے باوجود جانوروں میں ناچنے کی سکت ہی نہ رہی۔ رنگ ماسٹر نئے جانوروں کی تلاش میں نکلا، نئے جانوروں کے آتے ہی پُرانے جانوروں کو احساس ہوا کہ اب تو وہ جنگل جانے اور وہاں کام کرنے کے بھی قابل نہیں رہے اور یہاں بھی کوئی پُرسان حال نہیں۔
پُرانے جانوروں کو ماسٹر کی بات ماننا پڑی اور یوں سرکس کے جانوروں میں اضافہ ہو گیا مگر کھیل پُرانا ہی جاری رہا۔ تماشائیوں کے پاس کوئی اور تفریح نہ تھی لہذا سرکس چلتا رہا، شو بکتا رہا۔
میانمار میں منتخب حکومت کو گھر بھیج کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی سربراہ
اب رنگ ماسٹر نے نئی ترکیب بدلی، بظاہر نظر آنے والا ہاتھ کا ہنٹر غائب کر دیا اور ہاتھوں پر دستانے پہن لیے۔ جانوروں نے اسے کسی حد تک اپنی کامیابی گردانا اور سوچا کہ اب ماسٹر کی بات مانی جا سکتی ہے لہذا پھر سرکس کا آغاز ہو گیا۔
رنگ ماسٹر پیچھے رہ کر سرکس سجاتا رہا اور جانور مانتے رہے یہاں تک کہ سرکس کا سارا انتظام ان دیکھے ہاتھوں میں چلا گیا، جانوروں نے اپنے تمام حقوق پس پُشت ڈال دیے لیکن ایک دن ماسٹر نے پھر فیصلہ کیا کہ ان سب جانوروں کو سبق سکھایا جائے اور پنجرے میں دوبارہ قید کیا جائے۔
یوں ایک بار رنگ ماسٹر نے ہنٹر دوبارہ اُٹھا لیا۔
یہ کہانی میانمار کی ہے جہاں کی رہنما آنگ سان سوچی نے فوج کی ہر بات مانی، روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموش رہیں، فوج کو اقتدار میں 25 فیصد حصہ دے کر اختیار دیا۔ انسانی حقوق کے تمام ایوارڈ، تمام نشان دنیا نے واپس لیے، رُسوائیاں ہاتھ آئیں، آہستہ آہستہ عزت جاتی رہی۔ آخر مصلحت اور اقتدار کی خاطر خاموشی کسی کام نہ آئی نتیجہ ایک اور مارشل لا کی صورت میں نکلا۔
کہانی کا نتیجہ: آمریت کی پرورش کرتے رہنے سے اقدار نہیں بچتے، اقتدار بچ تو جاتا ہے مگر زیادہ دیر تک نہیں۔
Comments are closed.