سپریم کورٹ آف پاکستان نے 16 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کی برطرفی کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل سماعت کے لیے منظور کر لی۔
عدالتِ عظمیٰ نے کیس کی سماعت 29 نومبر سے شروع ہونے والے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پہلی سماعت پر سپریم کورٹ اپنا ہی دیا گیا فیصلہ کیسے مسترد کر سکتی ہے؟ 2 فاضل جج صاحبان فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکمِ امتناع کی استدعا مسترد کر دی۔
عدالتِ عظمیٰ نے اپنے حکم میں کہا کہ ملازمین کو فیصلے تک سرکاری گھروں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے استدعا کی کہ عدالت 20 اگست کے فیصلے کو معطل کر دے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کیس کے حقائق اور قانونی نکات سن کر فیصلے کی معطلی کا فیصلہ کریں گے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے استدعا کی کہ انسانی بنیادوں پر فیصلے کی معطلی چاہتے ہیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ انسانی بنیادوں کا جائزہ حکومت لے سکتی ہے، عدالت نہیں۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ یہ معاملہ شفافیت اور میرٹ پر بھرتیوں کا ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ سرکاری اداروں کا کام متاثر ہو رہا ہے، برطرف ملازمین کی جگہ نئی بھرتی بھی نہیں ہو سکتی، فیصلے سے 16 ہزار سے زائد خاندان متاثر ہو رہے ہیں، ہر روز متاثرہ افراد کے مرنے کی خبریں آ رہی ہیں۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ سرکاری اداروں کا کام پہلے بھی چلتا رہا ہے، اب بھی چلے گا، وفاقی حکومت نے برطرف ملازمین کی بحالی کے قانون کو درست قرار دے دیا ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ حکومت کیا چاہتی ہے؟ درخواست میں کچھ واضح نہیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ پارلیمان سے منظور شدہ قانون کا دفاع کرنا ہی میرا کام ہے۔
عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے اٹارنی جنرل کو عدالتی معاونت کے لیے نوٹس جاری کر دیا گیا۔
اٹارنی جنرل اور درخواست گزار کے وکلاء نے سپریم کورٹ سے عدالتی فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کر دی۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ فاضل جج صاحبان اس فیصلے کے مصنفین ہیں۔
نیر بخاری نے کہا کہ حکومت خود کہہ رہی ہے کہ عدالت اس فیصلے کو معطل کر دے۔
جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ ہم یہاں کھلے دل اور دماغ سے بیٹھے ہیں، اگر کوئی غلطیاں ہیں تو ہم نظرِ ثانی کر سکتے ہیں، بہت سارے قانونی مسائل اس میں درپیش ہیں، یوسف رضا گیلانی کیس میں عدالت اپنے پیرا میٹرز طے کر چکی ہے۔
رضا ربانی نے عدالت کے روبرو کہا کہ ایک اور معاملے کی طرف توجہ دلوانا چاہتا ہوں، حکومت نے لوگوں سے سرکاری رہائش گاہیں خالی کرانے کے احکامات دیئے ہیں، لوگ در بدر ہو رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ برطرف ملازمین تو کیس میں فریق ہی نہیں تھے، قانون کی تشریح یا عدالتی جائزے کے لیے معاونت کا نوٹس نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ نے قانون کا درست جائزہ نہیں لیا، عدالتی حکم سے 16 ہزار افراد نہیں 16 ہزار خاندان متاثر ہوئے۔
وکیل نیر بخاری نے کہا کہ جب حکومت ملازمین کو پیسے دینے کے لیے تیار ہے تو بات ہی ختم ہو جاتی ہے۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ بات تو ابھی شروع ہوئی ہے، پاکستان 16 ہزار افراد کا نہیں بلکہ 25 کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ لگ یہ رہا ہے کہ حکومت نے شہرت کے لیے نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت میں کیس ان ملازمین نے کیا جنہیں 2010ء کے قانون سے فوائد نہیں ملے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ملازمین کی بحالی کے لیے طریقہ کار اپنانا ہو گا، کسی نے خیرات کرنی ہے تو اپنی جیب سے کر سکتا ہے، سرکاری خزانہ خیرات کرنے کے لیے نہیں ہوتا، نظرِ ثانی درخواستوں کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے، کیس کی سماعت 29 نومبر کو دوپہر 1 بجے ہو گی۔
Comments are closed.