- مصنف, جیرمی بوون
- عہدہ, بی بی سی انٹرنیشنل ایڈیٹر
- ایک گھنٹہ قبل
اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع کو اس حوالے سے باقاعدہ اجازت دی ہے کہ حزب اللہ کے خلاف جوابی کارروائی کب اور کیسے کرنی ہے۔اسرائیل اور امریکہ مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر راکٹ حملے کا ذمہ دار حزب اللہ کو قرار دیتے ہیں جس کی وہ تردید کرتا ہے۔اسرائیلی وزرا کا سنیچر کے حملے کے بعد پیر کو ہنگامی اجلاس ہوا۔ یہ دونوں فریقین کے درمیان کئی ماہ سے جاری جھڑپوں کے بعد سب سے جان لیوا سرحد پار حملے کا واقعہ تھا جس نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ چھڑنے کے حوالے سے خدشات پیدا کیے ہیں۔تاہم مغربی حکومتیں اسرائیل سے انتہائی برداشت کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ ’حزب اللہ کے حملے پر اسرائیل کے پاس جواب دینے کا حق ہے۔‘ تاہم انھوں نے کہا کہ ’کوئی بھی وسیع پیمانے پر جنگ نہیں چاہتا۔‘مجدل شمس میں دروز برداری پر حملے کے بعد نتن یاہو دورۂ امریکہ چھوڑ کر اسرائیل واپس آ گئے۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ ہمارے بچے ہیں۔ اسرائیلی ریاست یہ برداشت نہیں کرے گی۔ ہمارا جواب سخت ہو گا۔‘تاہم خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم کے دورے کے موقع پر مقامی افراد نے احتجاج کیا۔ مقامی سطح پر اس حوالے سے غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ حکام اس حملے کو روکنے میں ناکام کیسے ہوئے۔وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ مجدل شمس میں حملے کے بعد اسرائیلی اور لبانی ہم منصب کے بیچ کئی بار بات چیت ہوئی ہے۔ ’بلیو لائن (لبان اور اسرائیل کے بیچ غیر رسمی سرحد) پر سفارتی حل کے لیے کام ہو رہا ہے جو ہمیشہ کے لیے حملے روک دے گا۔‘لبانی سرکاری میڈیا کے مطابق پیر کی صبح اسرائیل نے اپنی سرحد کے قریب لبان میں ڈرون حملہ کیا جس میں دو افراد کی ہلاکت ہوئی۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد اس کے جنگجو تھے۔ اسرائیل نے ان خبروں پر تبصرہ نہیں کیا۔بڑھتی کشیدگی کے دوران ایئر فرانس سمیت دیگر ایئر لائنز نے بیروت کی پروازوں معطل کر دی ہیں۔،تصویر کا ذریعہReuters
’اسرائیل پر جنگ کے حوالے سے اتحادیوں کا دباؤ‘
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے مقبوضہ گولان ہائٹس کے علاقے مجدل شمس پر حزب اللہ کی جانب سے مبینہ حملے کے انتقام کا عندیہ دیا ہے۔حزب اللہ نے مقبوضہ گولان ہائٹس کے علاقے مجدل شمس پر حملے کے الزام کی تردید کی ہے۔ تاہم اسرائیل کا اصرار ہے کہ یہ حملہ لبنانی مسلح گروہ نے ہی کیا ہے جس میں 12 بچے ہلاک ہوئے۔تاہم حزب اللہ کے لیے اسرائیل کی جانب سے ردعمل آنے کے بعد ہی پتا چلے گا کہ جنگ صرف لبنان اور اسرائیل کی سرحد تک محدود رہے گی یا حالات زیادہ کشیدہ ہو جائیں گے۔لبنان اور اسرائیل کی سرحد پر جھڑپ گذشتہ سال شروع ہوئی جب سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔حماس کے اسرائیل پر حملے کے دوسرے دن حزب اللہ نے فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل پر راکٹ فائر کیے تھے۔اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک غیر تحریر شدہ سمجھوتے کے تحت دونوں نے زیادہ تر صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنایا تاہم حقیقت میں اس میں شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
یہی وجہ تھی جو اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ سنگین ہونے کے باوجود سرحد تک محدود رہی۔ تاہم سرحد کے دونوں طرف بسنے والے ہزاروں لوگوں نے نقل مکانی کی ہے اور یہ علاقے ویران ہو گئے۔ڈر یہ ہے کہ حملوں میں شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو جائیں گے اور جنگ جیتنے کے لیے اسرائیل اور حزب اللہ اپنا پورا زور لگا دیں گے۔تاہم اگر اسرائیل جنوبی لبنان کے ویران علاقوں میں کارروائی کرتا ہے تو حالات مزید بگڑنے سے محفوظ رہیں گے جبکہ لبنان کے دارالحکومت بیروت پر حملہ ہوا تو شہریوں کی ہلاکت بھی ہو گی اور اس کے انفراسٹرکچر اور بجلی کے نظام کو بھی اچھا خاصا نقصان ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو حالات بہت زیادہ کشیدہ ہو جائیں گے۔حزب اللہ کا مجدل شمس پر حملے کی تردید کا بیان کافی کمزور تصور کیا جا رہا ہے۔ تاہم اس بات میں حقیقت کی بہت حد تک گنجائش ہے کہ واقعی حزب اللہ اس فُٹبال فیلڈ پر حملے کا ذمہ دار نہیں۔حزب اللہ نے زیادہ تر جنگ کے قوانین کی پیروی کی ہے اور شہریوں کے بجائے صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ہو سکتا ہے کہ حزب اللہ ماؤنٹ ہرمن پر واقع اسرائیل کے ارلی وارننگ سٹیشنز پر بڑے پیمانے کا حملہ کرنا چاہتا ہو۔حزب اللہ اسرائیل کا حماس سے بھی زیادہ طاقتور دشمن ہے۔ حزب اللہ لبنانی ریاست سے پوچھے بغیر اپنی کارروائیاں کرتا ہے۔ لبنانی ریاست حزب اللہ کے سامنے بہت کمزور ہے۔حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریب ہیں۔ اس کے جنگجو تربیت یافتہ ہیں اور نظم و ضبط کے پکّے ہیں اور ایران نے انھیں ایک بڑی تعداد میں میزائل فراہم کیے ہیں جن کی مدد سے اسرائیل کے شہروں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔حزب اللہ نے اپنی آخری بڑی جنگ 2006 میں اسرائیل کے خلاف لڑی تھی۔ برسوں تک شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں لڑائی کرنے کے بعد حزب اللہ کے جنگجوؤں کا تجربہ کافی وسیع ہے۔اسرائیلی قیادت یہ سب جانتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتی ہے کہ اپنی وسیع طاقت کے باوجود غزہ میں حماس کو ابھی تک زیر نہیں کیا جا سکا ہے اور اسرائیل کی فوج جن پر انحصار کرتی ہے وہ کافی تناؤ محسوس کر رہے ہیں۔اسرائیل پر امریکہ سمیت اپنے اتحادیوں کی طرف سے بھی شدید دباؤ ہے۔ اپنے اتحادیوں کے بغیر اسرائیل جنگی کارروائیوں کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔اس لیے اسرائیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسی کارروائی نہ کرے جس سے یہ جھڑپیں ایک جنگ میں تبدیل ہو جائیں۔امریکہ اور فرانس نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان سرحد پر جنگ کے خدشے کو کم کرنے کے لیے بات چیت کی کوشش کی ہے۔تاہم غزہ میں جنگ بندی نہ ہونا ان مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کو بھی ختم کر رہی ہے۔اس وقت اسرائیل اور لبنان کی سرحد مشرق وسطیٰ میں خطّے کے امن و امان کے حوالے سے سب سے اہم مقام بن گئی ہے۔تاہم اگر مجدل شمس میں فٹبال کھلاڑیوں کی ہلاکت سے پیدا ہونے والا بحران کسی طرح ٹل بھی جاتا ہے تب بھی حالات میں کشیدگی پیدا ہونے کا خدشہ قائم رہے گا کیونکہ سرحد پر جنگ کے قوانین بہت کمزور اور مبہم ہیں۔ان غیر واضح قوانین کی وجہ سے یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ ایک خونی حملہ ہوگا اور ایک بڑی جنگ چھڑ جائے گی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.