- مصنف, رفیع برگ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 2 گھنٹے قبل
اسرائیل کی ہائی کورٹ نے سخت گیر یہودیوں کے لیے فوج میں لازمی بھرتی سے استثنیٰ کے معاملے پر ایک حکم جاری کیا ہے جس نے طویل عرصے سے قائم اس تنازع کو ہوا دے کر حکومت کو بحران سے دوچار کیا ہے۔ ہائی کورٹ نے ان تمام حریدی تعلیمی اداروں کو دی جانے والی مالی امداد منجمد کرنے کا حکم دیا ہے جہاں کے طالبعلم فوج میں بھرتی کے اہل ہیں۔اس معاملے میں حکومت میں شامل حریدی جماعتوں نے غصے کا اظہار کیا ہے جبکہ دوسری جانب ایک سیکولر پارٹی نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔اکثر اسرائیلی شہری سخت گیر یہودیوں کو دی جانے والی اس استثنٰی کے خلاف ہیں۔
حریدی برادری اسرائیل کی کل آبادی کا 12 فیصد ہے۔ تاہم فوج میں لازم ڈیوٹی سے استثنیٰ کا اطلاق صرف ان افراد پر ہوتا ہے جو کل وقتی طور پر تورات کی تعلیم حاصل کر رہے ہوں۔ملک میں اسرائیلی عربوں کے علاوہ 18 سال کی عمر سے تقریباً تمام اسرائیلی مردوں اور عورتوں پر فوج میں بھرتی ہونا لازمی ہے۔اب اسرائیلی حکومت ایک ایسا بل متعارف کروانے کی کوشش کر رہی ہے جس کے ذریعے مشروط طور پر اس چھوٹ کی دوبارہ اجازت دی جا سکے۔لیکن حکومت کو حریدی پارٹیوں کی طرف سے اس معاملے پر شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جنگ کے دوران قائم کی گئی 72 نشستوں پر مشتمل حکومت میں شاس اور یو ٹی جی نامی جماعتوں کی 18 نشستیں ہیں۔جبکہ دوسری جانب، نیشنل یونین پارٹی جو کہ ایک سیکولر جماعت ہے، اس چھوٹ کو یکسر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔نیشنل یونین پارٹی کے سربراہ بینی گینٹز سابق آرمی چیف ہیں۔ انھوں نے اس منصوبے پر عملدرآمد کی صورت میں حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کی دھمکی دی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ عوام اس منصوبے کو برداشت نہیں کرے گی اور پارلیمان اس منصوبے کے حق میں ووٹ نہیں دے پائے گی۔ ’اگر یہ قانون منظورہو جاتا ہے تو میں اور میرے ساتھی اس ایوان کا حصہ نہیں رہیں گے۔‘اگرچہ بعض سخت گیر یہودی اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) میں خدمات سر انجام دیتے ہیں تاہم ان کی اکثریت ایسا نہیں کرتی جن میں یشیوا (وہ لوگ جو زندگی بھر تورات کا مطالعہ کرتے ہیں) شامل ہیں۔ 30 جون 2023 کو سخت گیر یہودیوں کو دی جانے والی استثنٰی سے متعلق سابقہ قانون کی میعاد ختم ہو گئی تھی۔اسرائیلی ہائی کورٹ نے ایسے یشیوا اداروں کے فنڈز منجمد کرنے کا حکم دیا ہے جہاں کے طلبہ جولائی 2023 سے فوج میں بھرتی کے اہل ہیں اور انھوں نے اب تک فوج میں اندراج نہیں کروایا۔ اس حکم سے مختلف یشیوا اداروں میں زیرِ تعلیم تقریباً 50 ہزار طلبہ متاثر ہوں گے۔حکومت کے لیے نئے قانون کا مسودہ تیار کرنے کی آخری تاریخ 31 مارچ ہے۔ بصورت دیگر، عدالت کا یہ حکم یکم اپریل سے نافذ ہوجائے گا۔سخت گیر یہودی جماعتوں نے اس فیصلے کو بد نما داغ قرار دیا ہے۔ناقدین کہتے ہیں کہ تمام یہودی اسرائیلیوں کو بغیر کسی استثنٰی کے فوج میں خدمات انجام دینی چاہییں۔ 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی غزہ جنگ کے بعد سے یہ معاملہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ اب تک اس جنگ میں 254 اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں۔شاس رہنما ارییہ ڈیری کے ایک سابق مشیر بارک سیری نے اسرائیل کے عوامی ریڈیو کو بتایا کہ ’جب سے عدالت نے فیصلہ سنایا ہے، تب سے حریدی جماعتیں شدید صدمے میں ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ تمام حریدی جماعتیں اس فیصلے سے پریشان ہیں کہ یکم اپریل سے فنڈنگ روک دی جائے گی۔ ’بر سرِ اقتدار لیکوڈ پارٹی، وزیرِاعظم بنیامن نتن یاہو اور دائیں بازو کی حکومت کے نمائندے ایک دوسرے پر اس کا الزام لگا رہے ہیں۔۔۔ حریدی کے لیے یہ اب تک کی سب سے مشکل صورتحال ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.