- مصنف, سٹیو روزنبرگ
- عہدہ, روس ایڈیٹر
- 27 منٹ قبل
2022 میں جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو صرف بین الاقوامی سطح پر اس کی مذمت ہی نہیں ہوئی بلکہ روس کی عسکری طاقت کو کمزور کرنے کی نیت سے پابندیوں کی ایک لہر کا آغاز بھی ہوا۔روس کے بیرون ملک اثاثے منجمند کیے گئے، روسی میعشت کو عالمی مالیاتی نظام سے الگ کر دیا گیا اور اس کی توانائی برآمدات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔مجھے یاد ہے کہ اس وقت مغربی حکام اور تجزیہ کاروں نے ان پابندیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ’غیر معمولی‘، ’اپاہج کرنے والی‘، جیسے الفاظ استعمال کیے تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ صورت حال کافی واضح ہے اور روسی معیشت کے لیے اتنے دباؤ کو برداشت کرنا ناممکن ہو گا۔یہ توقع کی جا رہی تھی کہ معاشی بحران کے خوف سے روس مجبورا اپنی افواج کو یوکرین سے واپس بلا لے گا۔ یقینا ایسا ہی ہونا چاہیے تھا؟
لیکن 27 ماہ بعد بھی یوکرین میں جنگ جاری ہے۔ اپاہج ہونا تو دور کی بات، روس کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے مطابق روس کی معیشت رواں سال تین عشاریہ دو فیصد کے حساب سے ترقی کرے گی۔ یہ شرح دنیا کی کئی ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہے۔’اپاہج کرنے والی‘ عالمی پابندیوں نے روس کی دکانوں میں سامان کی کمی پیدا نہیں کی۔ روس کی سپر مارکیٹیں بھری ہوئی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بڑھتی ہوئی قیمتیں ایک مسئلہ ضرور ہیں اور ہر چیز موجود نہیں کیوں کہ کئی مغربی کمپنیاں یوکرین پر روسی حملے کے بعد احتجاج کے طور پر ملک چھوڑ چکی ہیں۔تاہم ان مغربی کمپنیوں کی مصنوعات اب بھی مختلف ذرائع اور راستوں سے روس پہنچ رہی ہیں۔ اگر آپ تلاش کریں تو روس کی دکانوں میں امریکی کولا بھی دستیاب ہے۔یورپ اور امریکہ کی بڑی کاروباری شخصیات اور سی ای او روس کی سالانہ تقریبات کا حصہ چاہے نہ بن رہے ہوں، لیکن رواں سال سینٹ پیٹرزبرگ میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی معاشی فورم کی انتظامیہ کا دعوی ہے کہ 130 ممالک سے وفود شمولیت اختیار کریں گے۔مغربی دنیا کی مالیاتی پابندیوں کے دباؤ تلے جھکنے کے بجائے روسی معیشت نے مشرق اور جنوب میں نئی منڈیاں تلاش کر لی ہیں۔اور یہ تمام وہ وجوہات ہیں جن کی مدد سے روسی حکام یہ دعوی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ ان کے ملک کو سیاسی اور معاشی طور پر تنہا کر دینے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔یوگینی نادورشن پی ایف کیپیٹل میں سینئر اکانومسٹ ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’ایسا نظر آتا ہے کہ روسی معیشت نے انتہائی ناسازگار بیرونی حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پابندیوں نے معاشی طور پر اثر پہنچایا لیکن بہت کچھ بحال ہو چکا ہے۔ حالات کے مطابق خود کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔‘تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ روس پر لگائی جانے والی عالمی پابندیاں ناکام ہو چکی ہیں؟الینا ریباکووا پیٹرسن انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اکنامکس میں سینئر فیلو ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایک بڑا مسئلہ ہماری اس بارے میں سمجھ بوجھ تھی کہ پابندیاں کیا کر سکتی ہیں اور کیا نہیں۔‘’ایسا نہیں ہے کہ سوئچ دبایا اور روس غائب ہو جائے گا۔ پابندیاں کسی بھی ملک کو وقتی طور پر متاثر کرتی ہیں جب تک کہ وہ نیا راستہ تلاش نہ کر لے، تیل بیچنے یا سامان کی ترسیل کے لیے متبادل نہ تلاش کر لے۔ ہم ایک ایسے مقام پر موجود ہیں جب روس نے نیا راستہ تلاش کر لیا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
روس کے دارالحکومت ماسکو یا سینٹ پیٹرزبرگ شہر میں گھومنے نکلیں تو آپ کو بات سمجھنے کے لیے کسی ماہر معیشت کی ضرورت نہیں کہ چین پابندی زدہ روس کے لیے کتنا اہم بن چکا ہے۔ یہاں پر الیکٹرانکس کی دکانیں چینی ٹیبلٹس، موبائل فون سے بھری ہوئی ہیں۔ چینی کار ڈیلر بھی مقامی مارکیٹ پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ روس کی مقامی گاڑیاں بنانے کی صنعت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ ایک حالیہ کاروباری ایکسپو میں روسی وزیر اعظم میخائل مشوسٹن کو روسی برینڈ ولگا کا نیا ورژن دکھایا گیا۔ لیکن یہ ماڈل ایک چینی گاڑی ’چینگن‘ کی طرز پر بنائی گئی ہے۔وزیر اعظم نے سوال کیا کہ ’یہ سٹیئرنگ وہیل کہاں بنا؟ کیا یہ چینی ہے؟‘ وہ بظاہر کار میں روسی پرزوں کی کمی سے نالاں تھے۔ انھوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ یہ (سٹیئرنگ وہیل) روسی ہو۔لیکن روس کی معیشت کی ترقی گاڑیوں کی صنعت کے مرہون منت نہیں ہے۔ یہ کام دفاعی انڈسٹری کر رہی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.