ستاروں کی شکل کے ریت کے ٹیلے کب اور کیسے وجود میں آئے؟،تصویر کا ذریعہC Bristow
،تصویر کا کیپشنمراکش کے جنوب مشرق میں واقع یہ ٹیلا تقریباً 100 میٹر اونچا ہے

  • مصنف, جورجینا رنارڈ
  • عہدہ, سائنس رپورٹر
  • 3 منٹ قبل

تاریخ میں پہلی دفعہ سائنسدان کرہ ارض پر موجود سب سے پرانے مٹی کے ٹیلوں کی عمر پتہ لگانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ان ٹیلوں کو اِنکی ستاروں جیسی ساخت کے باعث ’ستاروں کی شکل والے ٹیلے‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی اونچائی کئی سو میٹر تک ہو سکتی ہے۔یہ ٹیلے افریقہ، ایشیا اور شمالی افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایسے ہی ٹیلے مریخ پر بھی موجود ہیں۔ لیکن آج سے قبل ان ٹیلوں کے بارے میں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کب اور کیسے وجود میں آئے۔تاہم، اب سائنسدان مراکش میں موجود ایک ایسے ہی ٹیلے ’لالا للیا‘ کے بارے میں دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ یہ ٹیلا 13,000 سال پہلے وجود میں آیا تھا۔

سٹار ٹیلوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مخالف سمت میں چلنے والی ہواؤں کے باعث وجود میں آتے ہیں۔ ایبرسٹ وِتھ یونیورسٹی کے پروفیسر جیوف ڈلر نے برک بیک یونیورسٹی کے پروفیسر چارلس برسٹو کے ساتھ مل کر ان ٹیلوں پر تحقیق کی ہے۔ پروفیسر ڈلرکہتے ہیں کہ ان ٹیلوں کی عمر جاننے کے بعد سائنسدانوں کو اُس زمانے کی آب و ہوا کو سمجھنے میں مدد ملے گی جب یہ وجود میں آئے تھے۔مقامی زبان میں ’لالا للیا‘ کا مطلب اونچی ترین مقدس جگہ ہے۔ یہ مراکش کے جنوب مشرق میں واقع ہے اور تقریباً 100 میٹر اونچی اور 700 میٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ابتدائی طور پر وجود میں آنے کے بعد اگلے 8,000 سال تک اس میں کسی طرح کی توسیع نہیں ہوئی۔ تاہم، پچھلے چند ہزار سالوں میں اس کے حجم میں کافی اضافہ ہوا ہے۔،تصویر کا ذریعہC Bristow

،تصویر کا کیپشنسٹار ٹیلے مخالف سمت میں چلنے والی ہواؤں کے باعث وجود میں آتے ہیں
عام طور پر زمین کی ارضیاتی تاریخ میں صحراؤں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے، لیکن سٹار ٹیلے اب تک اس میں شامل نہ تھے۔ پروفیسر ڈلرکہتے ہیں کہ ’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ ٹیلے حجم میں اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ماہرین کو اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ کسی ایک ٹیلے کو دیکھ رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’اس تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ یہ ٹیلا کافی قلیل مدت میں وجود میں آیا ہے اور یہ ہر سال تقریباً 50 سینٹی میٹر صحرا میں آگے بڑھ رہا ہے۔‘ پروفیسر ڈلر کہتے ہیں کہ ’یہ نتائج کافی لوگوں کے لیے حیران کن ہو سکتے ہیں۔‘سائنسدانوں نے اس ٹیلے کی عمر معلوم کرنے لیے ’لومینسسینس ڈیٹنگ‘ نامی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ اس طریقہ کار میں یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے ریت کے ذروں پر آخری بار سورج کی روشنی کب پڑی تھی۔اس کام کے لیے، ریت کو نمونوں کو رات کے اندھیرے میں مراکش سے ایک تجربہ گاہ میں لے جایا گیا جہاں ان کا دھیمی لال روشنی میں تجزیہ کیا گیا۔پروفیسر ڈلر ریت میں موجود معدنیات کے ذروں کو ’چھوٹی ریچارجیبل بیٹریوں‘ کی طرح دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ ذرات توانائی کو کرسٹل کے اندر ذخیرہ کرلیتے ہیں جو قدرتی ماحول میں موجود تابکاری سے وجود میں آتے ہیں۔جتنے زیادہ وقت کے لیے کوئی ذرہ زمین میں دفن رہتا ہے، اس میں اتنی ہی زیادہ توانائی محفوظ ہوتی ہے۔لیباٹری میں جب ان ذرات کو نکالا جاتا ہے، تو یہ ذرات اپنے اندر موجود توانائی کو روشنی کی شکل میں خارج کرتے ہیں اور اس طرح سائنسدان ان کی عمر کا اندازہ لگا پاتے ہیں۔پروفیسر ڈلر کہتے ہیں کہ وہ اپنی اندھیری تجربہ گاہ میں ان ذرات سے نکلنے والی روشنی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، روشنی تیزی سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی ذرہ کتنا پرانا ہے۔ایسا ہی ایک ستارے کی شکل کا ٹیلا امریکی ریاست کولاراڈو میں بھی ہے جس کی انچائی 225 میٹر ہے۔ پروفیسر ڈلر کہتے ہیں کہ ان ٹیلوں پر چڑھنا کافی محنت طلب کام ہے۔ ’آپ دو قدم اوپر جاتے ہیں تو ایک قدم پیچھے کی جانب پھسلتے ہیں۔ لیکن یہ اس محنت کے قابل ہے، اوپر سے بہت خوبصورت دکھتے ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}