سبرینہ صدیقی: صحافی جنھیں نریندر مودی سے امریکہ میں سوال کرنے پر ہراساں کیا جا رہا ہے

سبرینہ صدیقی اور پی ایم مودی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سبرینہ صدیقی اور انڈین وزیراعظم مودی وائٹ ہاؤس میں

امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹر سبرینہ صدیقی کو گذشتہ دنوں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی سے سوالات پوچھنے پر آن لائن ہراسانی کا سامنا رہا ہے۔

سنیچر کو وائٹ ہاؤس نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ سبرینہ نے نریندر مودی سے ان کی حکومت میں اقلیتوں کے ساتھ مبینہ امتیازی سلوک اور انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ پر سوالات پوچھے تھے۔

وائٹ ہاؤس کی سوموار کی پریس کانفرنس میں این بی سی کی رپورٹر کیلی او ڈونل نے سبرینہ صدیقی کو آن لائن ہراساں کیے جانے کے متعلق ایک سوال پوچھا۔

کیلی او ڈونل نے وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جان کربی سے پوچھا: ‘میں مختصراً ایک مختلف سوال پوچھنا چاہتی ہوں۔ وال سٹریٹ جرنل کی ہماری ساتھی صحافی نے صدر بائیڈن اور انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ سوال و جواب کے سیشن میں وزیر اعظم مودی سے ایک سوال پوچھا تھا۔ اس وقت سے انڈیا کے کچھ لوگ انھیں آن لائن ہراساں کر رہے ہیں۔

’ان میں سے کچھ رہنما بھی ہیں جو مودی حکومت کے حامی ہیں۔ سبرینہ کو اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ ایک مسلمان ہیں اور انھوں نے اس سے متعلق سوال کیا۔ ایک ڈیموکریٹک رہنما سے سوالات پوچھنے پر اس طرح کی ہراسانی کا سامنا کرنے پر وائٹ ہاؤس کا کیا ردعمل ہے؟

اس سوال کے جواب میں کربی نے کہا: ’ہمیں ہراساں کیے جانے کا علم ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے۔ ہم صحافیوں کو ہراساں کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ صحافی کہیں سے بھی ہوں یا کسی بھی حالت میں ہوں۔ یہ بالکل ناقابل قبول ہے۔ یہ جمہوریت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔’

سبرینہ صدیقی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سبرینہ صدیقی سوال پوچھتے ہوئے

سبرینہ صدیقی نے کیا پوچھ لیا تھا؟

پچھلے ہفتے جب انڈین پی ایم مودی سرکاری دورے پر جب وائٹ ہاؤس پہنچے تو مشترکہ پریس کانفرنس میں سبرینہ صدیقی نے وزیراعظم مودی سے انسانی حقوق اور اقلیتوں سے متعلق ایک سوال پوچھ لیا۔

انھوں نے پوچھا: ‘انڈیا طویل عرصے سے اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے اور وہ اس پر فخر کرتا ہے، لیکن انسانی حقوق کے بہت سے گروپ ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ کی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے اور اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب جبکہ آپ یہاں وائٹ ہاؤس کے مشرقی کمرے میں کھڑے ہیں جہاں بہت سے عالمی رہنماؤں نے جمہوریت کے تحفظ کے لیے وعدے کیے ہیں تو آپ بتائیں کہ آپ اور آپ کی حکومت اپنے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کو بہتر بنانے اور برقرار رکھنے اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے کیا اقدامات کرنے کو تیار ہیں؟’

نریندر مودی نے جواب دیا: ‘میں اس سوال سے حیران ہوں۔ جمہوریت ہمارے ڈی این اے میں ہے۔ انڈیا میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔’

ماضی میں بھی مودی حکومت پر ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ ان میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات، مسلمان صحافیوں اور طلبہ کی گرفتاریاں وغیرہ شامل ہیں۔

ایسے میں جب نریندر مودی بطور وزیراعظم پہلی بار پریس کانفرنس میں سوالوں کے جواب دینے آئے تو سبرینہ نے ان سے اس کے متعلق سوال کیا۔

پی ایم مودی نے اپنے جواب میں کہا: ’جمہوریت ہماری رگوں میں ہے۔ ہم جمہوریت جیتے ہیں۔ اور ہمارے آباؤ اجداد نے اسے ایک آئین کی شکل میں الفاظ میں ڈھالا ہے۔ ہماری حکومت جمہوریت کی بنیادی اقدار کی بنیاد پر بنے آئین کی بنیاد پر چلتی ہے۔ انڈیا میں حکومت سے ملنے والے فوائد سب کو ملتے ہیں، جو بھی ان کا حقدار ہے، وہ سب کو ملتا ہے۔ اسی لیے انڈیا کی جمہوری اقدار میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ نہ مذہب کی بنیاد پر، نہ ذات پات کی بنیاد پر، نہ عمر کی بنیاد پر، نہ علاقے کی بنیاد پر۔

سبرینہ صدیقی

،تصویر کا ذریعہINSTA/SABRINA

سوال پوچھنے کے بعد ٹرولنگ

جب سبرینہ صدیقی نے پی ایم مودی سے سوال کیا تو کچھ دیر بعد سوشل میڈیا پر ان کی ٹرولنگ شروع ہوگئی۔

بی جے پی کے حامی سوشل میڈیا ہینڈلز نے سبرینہ صدیقی کو اینٹی انڈیا اور پاکستانی قرار دیا اور ان کی مسلم شناخت کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

ٹرولز نے سبرینہ کی جانب سے پوسٹ کی گئی پاکستان کے جھنڈے کی تصاویر کے سکرین شاٹس بھی شیئر کیے۔

یہ بھی پڑھیے

جب ٹرولنگ بڑھی تو سبرینہ صدیقی نے ٹوئٹر پر اپنے والد کے ساتھ سنہ 2011 کی ایک تصویر پوسٹ کی۔ اس تصویر میں وہ اپنے والد کے ساتھ انڈیا کے میچ کے دوران انڈیا کی جرسی میں نظر آ رہی ہیں۔

سبرینہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘اب جبکہ کچھ لوگ میرے ذاتی پس منظر سے کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ پوری تصویر فراہم کی جانی چاہیے۔ بعض اوقات شناخت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے جو بظاہر نظر آتی ہے۔’

سبرینہ کے اس ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے کانگریس کے کئی رہنماؤں نے مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ان کی آن لائن ٹرولنگ کو انڈین امریکن مسلم کونسل نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

انڈین امریکن مسلم کونسل نے لکھا: ‘ذمہ دار رہنماؤں سے سوال پوچھنے کے معاملے میں صحافی اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ایسے صحافیوں کو ان کے کام کے سلسلے میں کبھی ٹرول نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم سبرینہ اور اس طرح کی دھمکیوں کا سامنا کرنے والے ہر صحافی کے ساتھ کھڑے ہیں۔’

سبرینہ صدیقی

،تصویر کا ذریعہINSTA/SABRINA SIDDIQUI

سبرینہ صدیقی کون ہیں؟

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سبرینہ کا تعلق انڈیا کے سرکردہ مصلح سرسید احمد خان کے خاندان سے ہے۔

سبرینہ نے نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے اور اپنے شوہر اور بچی کے ساتھ واشنگٹن میں قیام پذیر ہیں۔

سبرینہ طویل عرصے سے وائٹ ہاؤس کی رپورٹر ہیں اور وہ بائیڈن انتظامیہ کی خبروں کا کوریج کرتی ہیں۔

وہ ان صحافیوں میں شامل ہیں جو رواں سال یوکرین کے تاریخی دورے پر صدر بائیڈن کے ساتھ گئے تھے۔

2019 میں وال سٹریٹ جنرل میں شامل ہونے سے پہلے وہ برطانوی اخبار دی گارڈین کے لیے صدارتی انتخابات اور وائٹ ہاؤس کو کور کر چکی ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ