سامنے بالٹیمور کا تباہ شدہ پل، جہاز میں ’پریشانی اور خاموشی‘: ڈالی پر سوار 20 انڈین شہریوں کی واپسی کیسے ہو گی؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, بیرنڈ ڈیبسمین جونیئر
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، واشنگٹن
  • 47 منٹ قبل

امریکہ میں بالٹیمور بندرگاہ کے مشہور ’فرانسس سکاٹ کی برج‘ کے تباہ ہونے کے بعد تقریباً دو درجن افراد حادثے کا شکار ہونے والے جہاز پر پھنسے ہوئے ہیں۔’ڈالی‘ نامی اس مال بردار جہاز کے زیادہ تر عملے کا تعلق انڈیا سے ہے، جو اس حادثے میں معمولی زخمی ہوا۔ جہاز کے پل سے تصادم میں چھ لوگ مارے گئے۔تفتیش کار اب یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس حادثے کی وجہ کیا تھی۔ اس کے علاوہ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ کیا عملہ جہاز چھوڑ پائے گا یا نہیں۔اس تحریر میں ’ڈالی‘ کی موجودہ صورتحال اور اس پر سوار عملے کے بارے میں وہ تفصیلات بتائی جا رہی ہیں، جن کا ہمیں علم ہے۔

عملے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

حادثے کے وقت ’ڈالی‘ پر عملے کے 21 افراد سوار تھے۔ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب اس جہاز کو اپنے 27 روزہ سفر پر سری لنکا کی جانب روانہ ہوئے صرف چند ہی منٹ ہوئے تھے۔انڈیا نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عملے کے 21 میں سے 20 افراد کا تعلق انڈیا سے ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جہاز رانی کی عالمی صنعت میں تقریباً تین لاکھ 15 ہزار انڈین ملازمت کر رہے ہیں جو اس شعبے سے وابستہ افراد کا 20 فیصد بنتا ہے۔اس شعبے میں فلپائن کے شہریوں کے بعد انڈیا کا دوسرا نمبر ہے۔ امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق ’ڈالی‘ پر سوار عملے کے ایک شخص کا تعلق سری لنکا سے ہے۔ایک انڈین سرکاری عہدیدار نے گذشتہ ہفتے بتایا تھا کہ زخمی ہونے والے شخص سمیت عملے کے تمام افراد کی صحت اچھی ہے۔ اس کے علاوہ عملے کے بارے میں بہت کم تفصیلات دستیاب ہیں۔،تصویر کا ذریعہReuters

عملے کی حالت کیسی ہے؟

ڈالی پر سوار لوگوں سے رابطے میں رہنے والے جوشوا میسک ’بالٹیمور انٹرنیشنل سی فیئررز سینٹر‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ یہ غیر سرکاری تنظیم جہاز رانی سے وابستہ افراد کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔جوشوا نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک کیئر پیکج کی فراہمی کے بعد انھوں نے جہاز پر سوار عملے کے ساتھ واٹس ایپ پر پیغامات کا تبادلہ کیا۔جوشوا کے مطابق زیادہ تر افراد ’پریشان‘ ہیں اور انھوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ وہ اپنے رابطے میں رہنے والے کسی بھی شخص سے زیادہ بات نہیں کر رہے۔‘’سنیچر تک ان کے پاس وائی فائے بھی نہیں تھا تو انھیں نہیں معلوم کہ دنیا میں اس واقعے کے بارے میں کیا بات ہو رہی تھی۔ انھیں نہیں معلوم تھا کہ لوگ انھیں ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں یا انھیں برا بھلا کہہ رہے ہیں۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ بہت حساس صورتحال میں ہیں۔ اگر وہ کچھ بھی کہتے ہیں تو اس سے کمپنی کی نمائندگی ہو گی۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ انھیں احتیاط برتنے کا مشورہ دیا گیا ہو گا۔‘ بالٹیمور بندرگاہ پر آنے والے بحری جہازوں کے نظام کو دیکھنے والے ’اپوسٹل شپ آف سی‘ نامی پروگرام کے اینڈریو میڈلٹن کا کہنا ہے کہ اس حادثے کے بعد وہ جہاز کے عملے کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر کئی بار بات کر چکے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ’وہ کہتے ہیں کہ وہ سب ٹھیک ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

عملے کو جہاز چھوڑنے کی اجازت کب ملے گی؟

حکام کا کہنا ہے کہ ڈالی کا عملہ، جو ابھی بھی جہاز پر ہے، کو واپس لانے کا کوئی پروگرام نہیں۔ اس بات کا امکان نہیں کہ عملہ جہاز کی منتقلی سے پہلے اس سے نکل سکے، جو بذات خود ایک انتہائی پیچیدہ اور طویل عمل ہے۔جمعے کے روز کوسٹ گارڈ ایڈمرل شینن گیلریتھ نے کہا کہ ڈالی کو ہٹانا اولین ترجیح نہیں بلکہ جہازوں کی آمدورفت کے لیے بندرگارہ کو کھولنا زیادہ اہم ہے۔حتیٰ کے عام حالات میں بھی امریکی بندرگاہوں پر موجود جہازوں سے غیر ملکی عملے کو واپس بلانے کے لیے اچھی خاصی کاغذی کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ویزوں کے ساتھ ساتھ ملاحوں کو جہاز سے اترنے کے لیے پاسز کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انھیں ایسے افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو انھیں جہاز سے ٹرمینل کے گیٹ تک لے جائیں، اگرچہ یہ کام اس علاقے میں جہاز رانی کی صنعت سے وابستہ غیر سرکاری تنظیمیں بھی کر سکتی ہیں۔اب تک یہ واضح نہیں کہ ڈالی کے عملے نے جہاز چھوڑنے کے لیے مطلوبہ کاغذی کارروائی کی ہے یا نہیں۔بالٹیمور حادثے کے بعد امدادی کارروائی کرنے والی متحدہ کمانڈ نے پیر کے روز بی بی سی کو بتایا تھا کہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ تحقیقات کب تک چلیں گی اور ’جب تک یہ عمل مکمل نہیں ہو جاتا‘ عملہ جہاز پر ہی موجود رہے گا۔’انٹرنیشنل سی فیرئرز ویلفیئر اینڈ اسسٹنس نیٹ ورک‘ میں انٹرنیشنل آپریشنز مینجر کے عہدے پر فائز اور سمندری سفر کے تجربہ کار چراغ بہاری کا ماننا ہے کہ ڈالی کے سارے عملے کو واپس آنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’شاید کچھ ہفتے بعد عملے میں سے جونیئر عہدوں پر فائز افراد کو واپس گھر بھیج دیا جائے لیکن سینیئر عہدوں پر فائز عملے کو تحقیقات مکمل ہونے تک امریکہ میں رکھا جائے گا۔‘،تصویر کا ذریعہEPA

عملے کو اس وقت کن چیزوں کی ضرورت ہے؟

ڈالی کے عملے کے پاس خوراک، پانی اور دیگر سامان موجود ہے جو اصل میں سری لنکا کے سفر کے لیے تھا۔عملے کو جہاز رانی سے وابستہ غیر منافع بخش تنظیموں کی جانب سے پیکجز بھی ملیں گے اور جوشوا میسک کے مطابق ان میں بیک اشیا اور دوسری چیزیں شامل ہوں گی۔جوشوا میسک اور چراغ بہاری کے مطابق لیکن سب سے زیادہ ضروریات نفسیاتی ہیں۔ چراغ بہاری کے مطابق بوریت اور تناؤ سب سے اہم چیلنج ہیں۔ بہت سے ملاح جو اکثر نوجوان ہوتے ہیں، وقت گزارنے کے لیے سوشل میڈیا اور ویڈیو گیمز کا رخ کریں گے۔جوشوا میسک کہتے ہیں کہ ’سب سے خوش وہ جہاز ہوتے ہیں جہاں عملہ ساتھ مل بیٹھتا ہے اور ایک دوسرے کی کمپنی سے لطف و اندوز ہوتا ہے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔‘چراغ بہاری کا کہنا ہے کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ اس واقعے اور میڈیا میں اس بات پر بحث کہ اس حادثے کا ذمہ دار کون ہے، کے پس منظر میں عملے کو ذہنی صحت کے حوالے سے مدد کی ضرورت ہو گی۔انھوں نے کہا کہ ’اب ہر کوئی اس کیس کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسے رکنا چاہیے۔‘’عملے کے افراد پہلے ہی صدمے میں اور بہت زیادہ تناؤ کا شکار ہیں۔ وہ ایک غیر ملک میں ابھی تک جہاز پر ہیں۔ ہمیں ان کے ساتھ کھڑے ہونے اور انھیں اس بات کا یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کے بارے میں کسی قسم کی رائے قائم نہیں کی جائے گی۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}