بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

سال 2022 کا پہلا سورج گرہن جس سے آج تک کئی خوفناک عقائد جڑے ہیں

2022 کا پہلا سورج گرہن: وہ قدرتی عمل جس سے آج تک کئی خوفناک عقائد جڑے ہیں

سورج گرہن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سورج گرہن

سال کا پہلا سورج گرہن سنیچر کی رات دیر گئے ہو گا۔ رات ہونے کی وجہ سے یہ انڈیا یا پاکستان یہاں تک کہ پورے ایشیا میں کہیں نظر نہیں آئے گا۔

سورج گرہن یکم مئی 2022 کو پاکستانی وقت کے مطابق رات 11:46 پر شروع ہوگا اور صبح 3:37 پر ختم ہوگا۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق یہ گرہن چلی، ارجنٹائن، یوراگوئے، مغربی پیراگوئے، جنوب مغربی بولیویا، جنوب مشرقی پیرو اور جنوب مغربی برازیل میں نظر آئے گا۔

سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند زمین اور سورج کے درمیان آجاتا ہے۔ چاند کا سایہ زمین پر پڑتا ہے اور سورج کا کچھ حصہ یا پورا حصہ ڈھک جاتا ہے۔

مکمل سورج گرہن کے لیے زمین، چاند اور سورج کو خط مستقیم میں آنا پڑتا ہے۔

گرہن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

گرہن

گرہن کے بارے میں خوفناک عقائد آج بھی برقرار ہیں

دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے لیے سورج گرہن کسی نہ کسی خطرے کی علامت ہے، جیسے کہ دنیا کا خاتمہ یا کسی خوفناک ہلچل کا انتباہ۔

ہندو مذہب کے اساطیر میں اس کا تعلق امرت منتھن اور راہو کیتو نامی عفریتوں کی کہانی سے ہے اور اس کے ساتھ کئی توہمات وابستہ ہیں۔ گرہن نے ہمیشہ انسان کو جتنا حیران کیا ہے، اتنا ہی خوفزدہ بھی کیا ہے۔

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

درحقیقت جب تک انسان کے پاس سورج گرہن کی وجوہات کے بارے میں صحیح معلومات نہیں تھیں، اس وقت تک اس نے بے وقت سورج کے گرد چھائے ہوئے اس سیاہ سائے کے بارے میں بہت سے تخیلات، بہت سی کہانیاں بنا لیں۔

17ویں صدی کے یونانی شاعر آرکیکلس نے کہا تھا کہ عین دوپہر میں اندھیرا چھا جاتا ہے تو اس تجربے کے بعد اب وہ کسی چیز پر حیران نہیں ہوتے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ آج جب ہم گرہن کی سائنسی وجوہات جانتے ہیں تو بھی گرہن سے متعلق بہت سی کہانیاں اور توہمات برقرار ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیلیفورنیا کی گریفتھ آبزرویٹری کے ڈائریکٹر ایڈون کرپ کہتے ہیں: ‘سترہویں صدی کے اواخر تک بھی زیادہ تر لوگ نہیں جانتے تھے کہ گرہن کیوں ہوتا ہے یا ستارے کیوں ٹوٹتے ہیں۔ اگرچہ ماہرین فلکیات آٹھویں صدی سے ان کی سائنسی وجوہات سے واقف تھے۔’

کرپ کا کہنا ہے کہ ‘معلومات کی کمی کی وجہ مواصلات اور تعلیم کی کمی تھی۔ معلومات کو پھیلانا مشکل تھا جس کی وجہ سے توہمات پروان چڑھتے رہے۔’

وہ کہتے ہیں: ‘قدیم زمانے میں انسان کے روزمرہ کے معمولات فطرت کے قوانین کے مطابق چلتے تھے اور ان قوانین میں کوئی بھی تبدیلی انسان کو بے چین کرنے کے لیے کافی تھی۔’

گرہن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گرہن کے بارے میں مختلف تہذیبوں کے تصورات

روشنی اور زندگی کا سرچشمہ کہے جانے والے سورج کا چھپنا لوگوں کو خوفزدہ کرتا تھا اور اسی وجہ سے اس سے متعلق مختلف کہانیاں مشہور ہوئیں۔ سب سے زیادہ مشہور کہانی یہ تھی کہ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک شیطان سورج کو کھا جاتا ہے۔

جبکہ مغربی ایشیا میں یہ عقیدہ تھا کہ سورج گرہن کے دوران ایک ڈریگن یا اژدہا سورج کو نگلنے کی کوشش کرتا ہے اس لیے اس اژدھے کو بھگانے کے لیے ڈھول نگاڑے بجائے جاتے تھے۔

اس کے ساتھ ہی چین میں یہ عقیدہ بھی تھا کہ جو سورج کو نگلنے کی کوشش کرتا ہے وہ درحقیقت بہشت کا ایک کتا ہے۔ پیرو کے باشندوں کے مطابق، یہ ایک بڑا پوما ہے جو سورج کو نگلنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ وائکنگ کا عقیدہ تھا کہ آسمانی بھیڑیوں کا ایک جوڑا گرہن کے دوران سورج پر حملہ آور ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف دی ویسٹرن کیپ میں ماہر فلکیات اور پروفیسر جیریٹا ہالبروک کہتی ہیں: ‘گرہن کے بارے میں مختلف تہذیبوں کا نظریہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہاں کی فطرت کتنی فراخ یا نرم ہے۔ جہاں زندگی مشکل ہے، وہیں ظالم اور خوفناک دیوی دیوتا بھی ہیں اور اسی وجہ سے وہاں گرہن سے متعلق خوفناک کہانیاں بھی ہیں۔ اور جہاں زندگی آسان ہے، کھانے پینے کی وافر مقدار ہے، خدا یا سپر پاورز کے ساتھ بہت پیار بھرا رشتہ ہے وہاں ان کے اساطیر بھی اسی طرح کے ہیں۔’

عہد وسطیٰ کے یورپ میں طاعون اور جنگوں سے عوام بہت زیادہ پریشان رہا کرتی تھی۔ اس لیے سورج گرہن یا چاند گرہن نے انھیں بائبل میں درج قیامت کی تفصیل کی یاد دلاتا تھا۔ پروفیسر کرس فرنچ کہتے ہیں کہ ‘یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ لوگ گرہن کو قیامت سے کیوں جوڑتے تھے۔’

بائبل میں مذکور ہے کہ قیامت کے دن سورج بالکل سیاہ ہو جائے گا اور چاند کا رنگ سرخ ہو جائے گا۔

سورج گرہن اور چاند گرہن میں عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر لوگوں کی زندگی بھی مختصر تھی اور ایسا فلکیاتی واقعہ ان کی زندگی میں صرف آدھ بار ہی رونما ہو سکتا تھا اس لیے یہ باتیں انھیں خوفزدہ کردیا کرتی تھیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.