بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’ساری تنخواہ لے لو مگر پاکستان واپسی کا ویزہ دے دو‘

عجمان میں پھنسے پاکستانی انجینیئر: ’ساری تنخواہ لے لو مگر پاکستان واپسی کا ویزہ دے دو‘

  • محمد زبیر خان
  • صحافی

عبداللہ مختار اور ارمغان حیدر

،تصویر کا ذریعہCourtesy Abdullah Mukhtar

ارمغان حیدر کی بہن اپنے نکاح کی تقریب میں شرکت کرنے سے انکار کر چکی تھیں جبکہ ان کے دوست عبداللہ مختار کی بہن بھی بضد تھیں کہ اپنے اکلوتے بھائی اور بہترین دوست کی غیر موجودگی میں وہ اپنی زندگی کے سب سے اہم ترین دن پر کیسے خوش ہو سکتی ہیں۔

ارمغان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا، اس لیے انھوں نے اپنی بہن کو ایک جھوٹا ٹکٹ دکھایا اور کہا کہ وہ اگلے ہی روز پاکستان واپس آ رہے ہیں۔ دوسری طرف عبداللہ اپنی بہن کی شادی میں ویڈیو کال کے ذریعے ہی شریک ہو سکے اور ان کی بہن ان سے کہہ رہی تھیں کہ ’بھلے ساری دنیا اس شادی میں شرکت نہ کرتی مگر (کاش) تم ضرور موجود ہوتے۔‘

یہ دو نوجوان انجینیئرز پاکستانی عبداللہ مختار اور ارمغان حیدر متحدہ عرب امارات کی ریاست عجمان کی بندرگاہ پر گذشتہ کئی مہینوں سے پھنسے ہوئے ہیں۔

متحدہ عرب امارات اور عجمان نے کورونا کی وجہ سے پاکستانیوں پر ویزہ کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللہ اور ارمغان کو پاکستان واپسی کے لیے ٹرانزٹ ویزہ بھی فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم سے ہماری ساری تنخواہ لے لو مگر پاکستان واپسی کا ٹرانزٹ ویزہ دے دو۔’

بی بی سی نے عجمان پورٹ ٹرسٹ کے حکام سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ مزید معلومات اور ایجنٹ کی تفصیلات معلوم ہونے پر وہ اس پر انکوائری کریں گے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے تاحال اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیے

ان پاکستانی شہریوں نے بی بی سی کو بتایا کہ کورونا پابندیوں کے باعث پاکستان، ایران، یمن اور صومالیہ کے علاوہ کچھ اور ممالک کے شہریوں پر عجمان نے ویزہ کی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ جس وجہ سے ان دونوں کو ٹرانزٹ ویزہ بھی فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔

عبداللہ مختار اور ارمغان حیدر

،تصویر کا ذریعہCourtesy Abdullah Mukhtar

پھنسے ہوئے پاکستانی کون ہیں؟

عجمان کی بندرگاہ پر پھنسے ہوئے دونوں پاکستانیوں عبداللہ مختار اور ارمغان حیدر نے حال ہی میں میرین انجینیئرنگ میں گریجویشن کی تھی۔ وہ مایوس ہیں کہ وہ گھر والوں کے ساتھ کسی خوشی یا غمی کے لمحے میں شرکت نہیں کر سکتے۔

دونوں ہم جماعت ہیں اور دونوں ہی نے تعلیم سے فراغت کے بعد پہلی ملازمت یونان کی فیئر ڈیل نامی کمپنی کے جہازوں فیئر فیتھن اور فیئر پیگاسوس میں حاصل کی تھی۔

عبداللہ مختار کا تعلق کراچی سے ہے۔ انھوں نے جون 2019 میں ملازمت اختیار کی تھی اور ان کا معاہدہ اپریل 2020 تک کا تھا جس کے بعد انھوں نے واپس پاکستان آنا تھا۔ انھیں عجمان کی بندرگاہ پر پھنسے ہوئے تقریباً 11 ماہ ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب ارمغان حیدر کا تعلق صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ انھوں نے فروری 2020 میں اپنی خدمات کا آغاز کیا تھا اور ان کا معاہدہ ستمبر 2020 تک کا تھا، انھیں پھنسے ہوئے قریب چھ ماہ ہو چکے ہیں۔

عبداللہ مختار نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے کمپنی کے ساتھ اپنا معاہدہ پورا ہونے کے بعد فی الفور واپسی کے لیے کاغذات تیار کر لیے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے میرے ایجنٹ نے بتایا تھا کہ جلد ہی واپسی ہو گی مگر ابھی تک واپسی ممکن نہیں ہو سکی۔ جس سے میں مایوسی کا شکار ہو چکا ہوں۔‘

ارمغان حیدر کا کہنا تھا کہ کمپنی کی خواہش کے برعکس ’میں نے اپنا معاہدہ ختم ہونے کے بعد واپسی کو ترجیح دی تھی مگر ابھی تک یہ ممکن نہیں ہو سکا۔‘

ان کے مطابق ’ہمیں جہاز پر کوئی تکلیف نہیں ہے۔ کمپنی نے ہمیں واپسی کے کاغذات بھی بنا کر دے رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ کھانا، پانی اور تمام بنیادی سہولتیں کمپنی کی طرف سے فراہم کی جارہی ہیں مگر اس وقت ہماری پہلی ضرورت اپنے وطن اور گھر پہنچنا ہے۔‘

عبداللہ مختار اور ارمغان حیدر

،تصویر کا ذریعہCourtesy Abdullah Mukhtar

’بہنیں ہمارے بغیر شادی کرنے کو تیار نہ تھیں‘

دونوں دوست ہیں اور ان کی کہانیاں بھی ملتی جلتی ہیں۔

عبداللہ مختار کا کہنا تھا کہ ’ہم دو بہن بھائی ہیں۔ میرے جہاز پر آنے سے پہلے میری بہن کی شادی طے ہو چکی تھی۔ اس وقت فیصلہ یہ ہوا تھا کہ کمپنی سے معاہدے کا وقت ختم کر کے آوں گا تو شادی ہو گی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’معاہدہ ختم کرنے کے بعد بھی میری واپسی ممکن نہ ہو سکی تو شادی کی تاریخ دو بار ملتوی کی گئی مگر اب یہ تاریخ زیادہ ملتوی کرنا ممکن نہیں تھا۔

’میں نے اپنی بہن سے فون پر تفصیلی بات کی اور اس کو انتہائی مشکل سے شادی کرنے پر رضامند کیا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے اپنی بہن کی شادی میں ویڈیو کال کے ذریعے شرکت کی۔

’اس وقت بھی میری بہن مجھ سے یہی کہہ رہی تھی کہ بھلے ساری دنیا اس شادی میں شرکت نہ کرتی مگر تم ضرور موجود ہوتے۔ میں بس اس کو تسلیاں ہی دیتا رہا تھا۔‘

ادھر ارمغان حیدر بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا شکار تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں اور میں جب اپنی ملازمت کا آغاز کر رہا تھا تو اپنا معاہدہ ہی اپنی بہن کی شادی تک رکھا تھا کہ بہن کی شادی سے پہلے اپنے گھر پہنچ جاؤں۔

’ہمارے درمیان بہن بھائی والا رشتہ نہیں بلکہ دوستی والا رشتہ ہے اور ایک آدھ مرتبہ تو اس کی شادی کی تاریخ ملتوی ہوئی مگر پھر میرے بہنوئی اور سسرال کے کچھ مسائل تھے۔ جس پر شادی کی تاریخیں دوبارہ رکھنی پڑی تھیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بہن کی رخصتی سے پہلے نکاح کی تقریب ہونا تھی۔ جس کے دو دن بعد رخصتی تھی۔ میری بہن میرے بغیر نکاح کی تقریب میں شرکت نہیں کر رہی تھی۔ اس موقع پر میں نے اسے ویڈیو کال پر ایک جھوٹا ٹکٹ دکھایا کہ میں کل پہنچ رہا ہوں۔ جس کے بعد اس نے نکاح کی تقریب میں شرکت کی تھی۔‘

ارمغان حیدر کا کہنا تھا کہ نکاح کی تقریب کے بعد دوسرے روز اس کو سمجھا بھجا کر بڑی مشکل سے رخصتی پر راضی کیا تھا۔

’افسوس کہ ہم اپنی زندگیوں کے انتہائی قیمتی اور یادگار لمحات میں شرکت سے محروم رہے ہیں۔‘

سی مین سروس بُک اور ٹرانزٹ ویزا

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے معاہدے اور دیگر عالمی معاہدوں میں رکن ممالک کی ’سی مین سروس بک‘ رکھنے والے افراد کے لیے دنیا کے تقریباً ہر ملک نے ٹرانزٹ ویزہ کا حق تسلیم کیا ہے۔ اس میں متحدہ عرب امارات اور عجمان کی ریاست بھی شامل ہے۔

کسی بھی ملک کی سی مین سروس بک رکھنے والوں کو بندگار ہی سے اپنے ملک واپسی کے لیے ٹرانزٹ ویزہ فراہم کر دیا جاتا ہے۔

اس کی مدد سے یہ افراد شہروں میں داخل ہو کر ہوائی سفر یا کسی بھی طریقے سے اپنے ملک کی طرف سفر کر سکتے ہیں۔

ارمغان حیدر کا دعویٰ ہے کہ ’ہم دونوں کے پاس حکومت پاکستان کے جاری کردہ سی مین سروس بک موجود ہے مگر ہمیں بندرگارہ پر حکام بتاتے ہیں کہ پاکستانیوں کے لیے فی الحال ویزہ کی پابندی ہے جس وجہ سے ہمیں ویزہ نہیں دیا جا رہا ہے۔‘

’جب ہم ان سے صرف ٹرانزٹ ویزہ کی بات کرتے ہیں تو وہ پھر بھی ہم سے معذرت کرتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے حالانکہ دیگر ممالک کے کئی ملاح ہمارے سامنے عجمان بندرگاہ ہی سے ٹرانزٹ ویزے حاصل کر کے اپنے ممالک چلے گئے ہیں۔‘

بی بی سی نے مؤقف حاصل کرنے کے لیے عجمان پورٹ انتظامیہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ مزید معلومات اور ایجنٹ کی تفصیلات معلوم ہونے پر وہ اس پر انکوائری کریں گے۔

دوسری جانب اس حوالے سے بات کرنے کے لیے پاکستان کی وزارت خارجہ کے ساتھ فون پر رابطہ نہ ہونے کے باعث ای میل کے ذریعے بھی رابطہ کیا گیا مگر تاحال دونوں جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہو سکا۔

’مبارکباد کے لیے فون کیا تو بھتیجی کی موت کا علم ہوا‘

عبداللہ مختار کا کہنا تھا کہ ’میرے والد صاحب اس وقت بیمار ہیں۔ ان کو ہر دوسرے، تیسرے دن ڈاکٹر کے پاس لانے لے جانے کی ضرورت پڑتی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’والدہ بھی ٹھیک نہیں رہتیں۔ وہ بڑی مشکل سے والد صاحب کی تیمارداری کر رہی ہیں۔

’والدہ ہر دوسرے روز فون کر کے پوچھتی ہیں کہ میں کب واپس پہنچ رہا ہوں۔ اس وقت ان کو میری ضرورت ہے۔‘

ارمغان حیدر کا کہنا تھا کہ ’میرے انتہائی عزیز چچا فوت ہوئے ہیں۔ میں ان کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکا۔ میری نومولو بھتیجی پیدا ہونے کے بعد وفات پا گئی تھی۔ میں نے بھائی کو مبارک باد کے لیے فون کیا تو اس نے یہ خبر سنائی تھی۔‘

انھوں نے حکام سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’ذرا دل پر ہاتھ رکھیں اور سوچیں کہ یہ لمحات اور وقت ہم لوگوں نے کس طرح گزارا ہو گا۔‘

’ہم کہتے ہیں کہ ہم سے ساری تنخواہ لے لو مگر ہمیں پاکستان واپس جانے کے لیے ٹرانزٹ ویزہ دے دو۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.