سارہ شریف کے خاندان کی پاکستان میں تلاش: ’ہاں، عرفان شریف ہمارے پاس آیا تھا‘

سارہ شریف

،تصویر کا ذریعہPOLICE HANDOUT

  • مصنف, کیری ڈیویز
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، اسلام آباد

پاکستان کی پولیس کا کہنا ہے کہ ان کو برطانیہ میں 10 سالہ سارہ شریف کی لاش ملنے کے پانچ دن بعد اس کے اہلخانہ کی تلاش کی درخواست وصول ہوئی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ درخواست ان کو انٹرپول کے ذریعے ملی تھی۔ برطانیہ میں سرے کاؤنٹی پولیس نے اب تک نہیں بتایا کہ ان کی جانب سے انٹرپول کو اس تلاش کے لیے درخواست کب دی گئی تھی۔

واضح رہے کہ سارہ شریف کی لاش 10 اگست کو برطانیہ میں ووکنگ کے علاقے میں ایک گھر سے ملی تھی جس سے ایک ہی دن قبل ان کے اہلخانہ پاکستان روانہ ہو گئے تھے۔

سارہ کے 41 سالہ والد عرفان شریف، ان کی 29 سالہ اہلیہ بینش بتول اور عرفان کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک پولیس کو مطلوب ہیں۔

بی بی سی کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں اس معاملے کی تفتیش کرنے والی پولیس کا ماننا ہے کہ یہ تینوں 13 اگست کی صبح تک پاکستان میں اپنے رشتہ داروں کے پاس مقیم تھے لیکن اس دن کے بعد ان کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا۔

میں نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس خاندان کی تلاش کی۔ لیکن ووکنگ سے آٹھ ہزار میل دور ان کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔

سارہ کے 41 سالہ والد عرفان شریف، ان کی 29 سالہ اہلیہ بینش بتول اور عرفان کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک

،تصویر کا ذریعہPOLICE HANDOUT

،تصویر کا کیپشن

سارہ کے 41 سالہ والد عرفان شریف، ان کی 29 سالہ اہلیہ بینش بتول اور عرفان کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک

ہم پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وسط میں ڈومیلی کے مقام پر پہنچے تو یہاں فصلوں اور پہاڑیوں کے درمیان کچے راستوں پر بمشکل گاڑی کے گزرنے کا راستہ تھا۔

مقامی پولیس کے مطابق یہ وہ مقام ہے جہاں عرفان شریف، بینش بتول اور فیصل ملک آخری بار دیکھے گئے تھے۔

پولیس کی تفتیش کے مطابق یہ تینوں عرفان شریف کی شادی شدہ بہن کے گھر 12 اگست کی رات کو پہنچے تھے اور اگلے ہی دن پانچ بجے وہاں سے روانہ ہو گئے۔ پولیس نہیں جانتی کہ تینوں افراد اس جگہ سے کہاں گئے۔

ہم نے ان کے رشتہ داروں کے گھر کا دورہ کیا لیکن انھوں نے ہمیں صرف اتنا ہی بتایا کہ عرفان شریف کے بہنوئی کو پولیس والے کئی دن پہلے لے گئے تھے جس کے بعد سے ان کو نہیں دیکھا گیا۔

امیر افضل، عرفان شریف کے بہنوئی کے چچا ہیں جنھوں نے ہمیں بتایا کہ ’ہاں، عرفان شریف ہمارے پاس آیا تھا۔‘

’میری اس سے ملاقات نہیں ہو سکی لیکن میرے گھر والوں نے مجھے اگلی صبح بتایا کہ وہ لوگ رات کو آئے تھے۔‘

امیر افضل نے بتایا کہ وہ اپنے بھتیجے کی گرفتاری کی وجہ سے پریشان ہیں۔

’اگر عرفان کے گھر والوں کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے تو ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘

پاکستان

،تصویر کا کیپشن

امیر افضل عرفان شریف کے بہنوئی کے چچا ہیں جنھوں نے ہمیں بتایا کہ ’ہاں، عرفان شریف ہمارے پاس آیا تھا۔‘

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

پولیس نے عرفان شریف اور ان کے اہلخانہ کے پاکستان میں پہلے چند دنوں کی تفصیلات بھی فراہم کی ہیں۔

یہ بات تو پہلے سے ہی معلوم تھی کہ وہ 10 اگست کی صبح اسلام آباد ایئر پورٹ پہنچے تھے جہاں سے عرفان شریف نے برطانیہ ایمرجنسی سروس کو فون کیا جس کی وجہ سے پولیس نے ووکنگ کے ایک گھر سے سارہ کی لاش دریافت کی۔

اب تک کی تفتیش کے مطابق سارہ شریف کے جسم پر متعدد زخم تھے جو کافی عرصے کے دوران لگے۔

پاکستان کی پولیس کا کہنا ہے کہ عرفان شریف اور ان کے گھر والوں کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر ان کے خاندان کے اراکین لینے آئے ہوئے تھے جن کے ساتھ وہ جہلم پہنچے۔

جہاں وہ دو دن اپنے خاندانی گھر میں رہنے کے بعد 12 اگست کو وہ اپنی بہن کے گھر پہنچے جہاں انھوں نے چند ہی گھنٹے بتائے۔

پنجاب پولیس کے آر پی او سید خرم علی نے ہمیں بتایا کہ ’ان کے بہنوئی نے بتایا ہے کہ وہ صبح پانچ بجے وہاں سے نکل گئے تھے اور میں نے سوال کیا کہ تم رات کو 12 بجے آئے ہو تو اتنی جلدی کیوں جا رہے ہو؟‘

’انھوں نے جواب دیا کہ ان کو ضروری کام ہے لیکن انھوں نے زیادہ وضاحت نہیں دی، جب ہم نے گھر والوں سے پوچھا کہ ان کے آنے کی وجہ کیا تھی تو انھوں نے کہا کہ یہ معمول کا دورہ تھا۔‘

اسی گفتگو کے دوران خرم علی نے بتایا کہ پنجاب پولیس کو اس خاندان کی تلاش کے لیے 15 اگست کو ایف آئی اے کے ذریعے انٹرپول کی درخواست موصول ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ سارہ کی لاش 10 اگست کو ملی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان

،تصویر کا کیپشن

پولیس کی تفتیش کے مطابق عرفان شریف ڈومیلی میں اپنی شادی شدہ بہن کے گھر 12 اگست کی رات کو پہنچے تھے اور اگلے ہی دن پانچ بجے وہاں سے روانہ ہو گئے

ہم نے پانچ دن کی اس تاخیر کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی۔ سرے پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے بین الاقوامی پارٹنر اداروں سے 10 اگست سے ہی رابطہ قائم کر لیا گیا تھا۔

تاہم سرے پولیس کی جانب سے ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ انھوں نے انٹرپول کو اس خاندان کی تلاش کے لیے پاکستان کی پولیس سے رابطہ کرنے کی درخواست کب دی تھی۔

ایف آئی اے نے بی بی سی کی جانب سے رابطوں کا جواب نہیں دیا جبکہ پولیس کے مطابق انھوں نے 16 اگست کو تلاش کا آغاز کیا۔

کب کیا ہوا؟

10 اگست: ووکنگ میں سارہ کی لاش ملی۔ سرے پولیس کا کہنا ہے انھوں نے بین الاقوامی پارٹنرز سے رابطہ قائم کرنا شروع کیا۔ سارہ کے والد عرفان شریف، سوتیلی والدہ بینش بتول اور عرفان کے بھائی فیصل ملک اسلام آباد پہنچے اور جہلم چلے گئے۔

12 اگست: عرفان شریف، بینش بتول اور فیصل ملک رات کو جہلم سے ڈومیلی پہنچے

13 اگست: تینوں افراد صبح سویرے ڈومیلی سے نکلے جو پولیس کے مطابق ان کا آخری معلوم مقام ہے۔

15 اگست: پولیس کے مطابق ان کو ایف آئی اے کے ذریعے انٹرپول کی درخواست موصول ہوئی کہ تینوں افراد کو تلاش کیا جائے۔

16 اگست: پاکستان میں پولیس نے تینوں افراد کی تلاش کا باقاعدہ آغاز کر دیا

سارہ کی لاش ملنے کے تین ہفتوں بعد بھی یہاں پولیس کو اس کے والد، سوتیلی والدہ اور خاندان کے بارے میں علم نہیں ہو سکا۔

پولیس نے ہمیں بتایا کہ تلاش کے لیے اب دو مختلف ٹیمیں کام کر رہی ہیں جو جہلم، سیالکوٹ اور مانسہرہ میں نئی معلومات کی روشنی میں مختلف مقامات پر تلاش کر رہی ہیں۔

خرم علی کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں ان کے لیے زیادہ عرصے تک چھپے رہنا اب بہت مشکل ہو گا۔‘

’وہ مختلف ضروریات کے لیے مختلف لوگوں سے رابطہ کریں گے۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ غیر میعنہ مدت تک چھپے رہیں۔‘

’پولیس ان کا پیچھا کر رہی ہے، دن رات کام کر رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ان کو ڈھونڈ لیں گے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ