سارہ انعام قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہنواز امیر نے اپنے اوپر قتل کے لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کردی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں سیشن جج ناصر جاوید رانا کی عدالت میں سارہ انعام قتل کیس کی سماعت ہوئی۔
مرکزی ملزم شاہنواز امیر نے آئندہ سماعت پر عدالت میں اپنے دفاع میں ثبوت پیش کرنے کا بیان دیا اور کہا کہ وہ قتل کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جولائی 2022ء میں سارہ انعام نے اپنے والدین سے پوچھے بغیر مجھ سے نکاح کیا، میری اہلیہ کے والدین اور رشتہ دار ہماری شادی سے خوش نہیں تھے۔
شاہنواز امیر نے یہ بھی کہا کہ وقوع کی رات سارہ میرے گھر آئیں، والدہ نے ہمارے لیے کھانا بنایا، ہم تینوں نے کھانا ساتھ کھایا، خوب گپ شپ کی، پھر سونے چلے گئے۔
اُن کا کہنا تھا کہ رات کو سارہ نیند سے اٹھ کر واش روم گئیں، میں تب سویا ہوا تھا، میں صبح 7 بجے اٹھا اور ناشتہ لینے ایف 8 مارکیٹ چلا گیا۔
شاہنواز امیر نے کہا کہ میں 9 بجے جب واپس آیا تو سارہ کمرے میں موجود نہیں تھیں، ڈھونڈنے پر سارہ انعام کو میں نے باتھ ٹب میں گرے ہوئے دیکھا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے سارہ کو دیکھا تو ان کی موت واقع ہوچکی تھی، جس کی موت سے میں ڈر گیا، والدہ کو بتایا جو دوسرےکمرے میں تھیں۔
شاہنواز امیر نے کہا کہ والدہ ثمینہ شاہ نے والد ایاز امیر کو چکوال کال کرکے واقعے کے بارے میں بتایا، پولیس پہنچی تو میں نے تمام واقعہ انہیں بتایا لیکن مقدمہ میرےخلاف درج کردیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے اور میری فیملی کے خلاف من گھڑت جھوٹی کہانی بنا کر مقدمہ درج کیا گیا۔
شاہنواز امیر نے کہا کہ میرے والد ایاز امیر صحافی ہیں، پی ٹی آئی کے حق اور پی ڈی ایم کے خلاف بولتے تھے، والد کی وجہ سے ہمیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سارہ انعام باتھ روم میں سلپ ہوئیں، سر باتھ ٹب سے لگا اور موت واقع ہوئی، میری غیر موجودگی میں کسی نامعلوم شخص نے میری اہلیہ کو قتل کیا ہوگا۔
شاہنواز امیر نے کہا کہ پولیس نے جان بوجھ کر میرے گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں نکلوائی۔
عدالت نے سارہ انعام قتل کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.