جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

سات سالہ بچی اپنے ’والد کی طرف بھاگ رہی تھی‘ جب اسے گولی ماری گئی

میانمار میں فوجی بغاوت: سات سالہ بچی اپنے ’والد کی طرف بھاگ رہی تھی‘ جب اسے گولی ماری گئی

میانمار

،تصویر کا ذریعہKHIN MYO CHIT’S Family

،تصویر کا کیپشن

میانمار میں ہلاک ہونے والی معصوم بچی جو پولیس کی گولی کا نشانہ بن گئی

میانمار میں ایک سات سالہ بچی گولی لگنے سے ہلاک ہو گئی ہے۔ یہ بچی ملک میں فوجی بغاوت کے خلاف شروع ہونے والے عوامی احتجاج میں ہلاک ہونے والوں میں سب سے کم عمر ہے۔

کہن میو چٹ کے گھر والوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے گھر پر چھاپے کے دوران کہن اپنے باپ کی طرف دوڑی اور پولیس کی گولی کا نشانہ بن گئی۔

میانمار میں عوامی احتجاج میں شدت آتی جا رہی ہے جس کے ساتھ فوج بھی اسے زیادہ قوت سے دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق اب تک ہلاک ہونے والے درجنوں افراد میں 20 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔

فوج کے مطابق حکومت مخالف احتجاج میں اب تک 164 افراد ہلاک ہو چکے ہیں لیکن سیاسی اسیروں کی ایک تنظیم ایسوسی ایشن فار پولیٹل پرزنرز نے کہا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 261 تک پہنچ گئی ہے۔

میانمار

،تصویر کا ذریعہAUNG KYAW OO

فوج نے منگل کو ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ عناصر ملک میں افراتفری، انتشار اور تشدد کا سبب بن رہے تھے۔

سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف آتشیں اسلحے کا استعمال کیا ہے اور متعدد عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ لوگوں سے مار پیٹ کی جاتی ہے اور مظاہرین اور سرگرم کارکنوں کے گھروں پر چھاپوں کے دوران انھیں گولی مار کر بھی ہلاک کر دیا جاتا ہے۔

’۔۔۔اور پھر انھوں نے اسے گولی مار دی‘

کہن میو چٹ کی بڑی بہن نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل کی سہ پہر کو میندالے کے علاقے میں ان کے محلے میں پولیس تمام گھروں کی تلاشی لے رہی تھی جب وہ اسلحے اور مظاہروں میں حصہ لینے والوں کی تلاش میں ان کے گھر میں بھی داخل ہوئی۔

پچس سالہ مے تھو سومیا نے کہا کہ ان کے گھر کے دروازے کو لات مار کر کھولا گیا اور پھر ان کے والد سے پولیس نے پوچھا کے گھر میں اور کون موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ان کے والد نے جواب دیا کہ گھر میں کوئی اور موجود نہیں تو پولیس نے انھیں جھوٹا کہہ کر گھر کی تلاشی لینی شروع کر دی۔

انہوں نے بتایا کہ اسی لمحے ان کی سات برس کی بہن دوڑتی ہوئی ان کے والد کی طرف آئی جس پر پولیس نے گولی چلا دی۔

میانمار میں ایک مقامی ٹی وی چینل ’میانمار مسلم چینل‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے بچی کے والد نے اپنی بیٹی کے آخری الفاظ وتاتی ہوئے بتایا کہ ان کی بچی نے کہا کہ وہ برداشت نہیں کر سکتی ’بہت درد ہو رہا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ گولی لگنے کے آدھے گھنٹے بعد وہ ہسپتال لے جاتے ہوئے گاڑی میں دم توڑ گئیں۔ پولیس نے ہلاک ہونے والی بچی کے 19 سالہ بھائی کو زد و کوب کیا اور گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئی۔

فوج کی طرف سے اس واقعہ پر اب تک کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔

سیو دی چلڈرن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سات سالہ بچی کی ہلاکت پر انھیں شدید صدمہ ہوا ہے جس کی ہلاکت سے صرف ایک دن پہلے میندالے ہی میں ایک چودہ سالہ بچے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

ان بچوں کی ہلاکت انتہائی تشویش ناک بات ہے کیونکہ ان بچوں کو اُن کے گھر پر گولی مار کر ہلاک کیا گیا جہاں انہیں کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔

اس عالمی تنظیم کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سکیورٹی فورسز کو انسانی زندگی کا کوئی احساس نہیں ہے۔

دریں اثنا بدھ کے روز حکام نے ینگون کی جیل سے چھ سو کے قریب افراد کو رہا کر دیا ہے جن میں سے زیادہ تر طالب علم ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے لیے کام کرنے والے مقامی صحافی زاو بھی رہائی پانے والوں میں شامل ہیں۔ وہ ان صحافیوں میں شامل تھے جنہیں گزشتہ ماہ مظاہروں کی رپورٹنگ کرتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

سیاسی اسیروں کی تنظیم کے مطابق اب تک کم از کم دو ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

مظاہرین نے اب خاموش ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس دوران تمام کاروبار بند کر کے لوگ گھروں پر رہیں گے۔

ینگون اور دیگر شہروں میں رات کو شمعیں روشن کر کے ہلاک ہونے والوں کی یاد منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.