سات بچوں کے مبینہ قتل میں ملوث نرس:’ہمیشہ سے بچوں کے ساتھ کام کرنا چاہتی تھی‘
لیٹبی اپنی گواہی دیتے ہوئے روتی رہیں
- مصنف, لورین ہرسٹ، ڈینیئل او ڈانوہو اور جوڈیٹتھ مورٹز
- عہدہ, بی بی سی نیوز
برطانیہ میں ایک ہسپتال میں نومولود بچوں کے یونٹ میں سات بچوں کو مبینہ طور پر قتل کرنے اور 10 دیگر کو مارنے کی کوشش کے الزامات کا سامنا کرنے والی نرس نے کہا ہے کہ وہ ’ہمیشہ سے بچوں کے ساتھ کام کرنا چاہتی تھی‘۔
لوسی لیٹبی نامی نرس کے خلاف مقدمے کی سماعت مانچسٹر کراؤن کورٹ میں ہو رہی ہے، جہاں انھیں 2015 اور 2016 کے درمیان کاؤنٹیس آف چیسٹر ہسپتال میں پیش آنے والے واقعات سے متعلق 22 الزامات کا سامنا ہے۔
ملزمہ سماعت کے دوران پہلی بار گرفتاری کو یاد کرتے ہوئے رو پڑی۔ 33 سالہ ملزمہ نے تمام الزامات سے انکار کیا ہے۔
استغاثہ کا الزام ہے کہ لیٹبی نے نوزائیدہ بچوں کو نشانہ بنانے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے، جن میں ان کی نسوں میں انجیکشن سے ہوا بھرنا اور انسولین لگانا شامل تھا۔
منگل کو ملزمہ لیٹبی پہلی مرتبہ کٹہرے میں آئیں اور اپنے دفاع کے وکیل بیرسٹر بین مائرز کے سی کے سوالات کے جوابات دیے۔ کٹہرے میں ان کے دائیں بائیں دو جیل اہلکار موجود تھے۔
متاثرین کے لواحقین پبلک گیلری میں بیٹھے ہوئے تھے۔
استغاثہ کو کیس کی تیاری میں چھ ماہ لگے ہیں۔ جیوری میں چار مرد اور آٹھ خواتین شامل ہیں۔
لیٹبی نے عدالت کو بتایا کہ وہ یونیورسٹی جانے والی اپنے خاندان کی پہلی رکن تھیں اور یہ کہ انھوں نے نرس بننے کے لیے اپنے کورس کا انتخاب کیا تھا۔
لیٹبی نے مزید کہا کہ الزامات میں جس عرصے کا ذکر کیا گیا ہے اس دوران انھوں نے سینکڑوں بچوں کی دیکھ بھال کی تھی۔
ملزمہ نے کسی بھی بچے کو نقصان پہنچانے کی تردید کی اور کہا کہ ان کے خلاف الزامات ’نفرت انگیز‘ ہیں۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے لیے ان الزامات پر ’یقین کرنا مشکل تھا‘ اور یہ کہ وہ انھیں سن کر ’ٹوٹ‘ گئیں۔
لیٹبی نے کہا کہ ستمبر 2016 میں پہلی بار ان الزامات سے آگاہ ہونے کے بعد انھیں اپنے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا تھا۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ’میں سو نہیں پا رہی تھی، میں کھا نہیں رہی تھی‘۔
ان کے مطابق انھیں ’اینٹی ڈپریسنٹس دی گئی تھیں، جو میں اب بھی لے رہی ہوں۔‘
لیٹبی نے کہا کہ پچھلے کچھ سالوں میں ’ایسا وقت آیا جب میں زندہ نہیں رہنا چاہتی تھی‘۔
انھوں نے کہا کہ ان کا ’کام زندگی تھی‘، انھوں نے مزید کہا کہ وہ ’لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی‘ کہ الزامات کا ان پر کیا اثر ہوا ہے۔
لیٹبی وہ لمحات یاد کرتے ہوئے رو پڑیں جب جولائی 2018 میں ایک صبح 6 بجے ان کی آنکھ کھلی اور انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ انھیں گھر سے ان کے پاجامے میں لے جایا گیا اور بتایا گیا کہ ان پر قتل اور اقدام قتل کی فرد جرم عائد کی جا رہی ہے۔
’یہ وہ سب سے زیادہ خوفناک چیز تھی جس سے میں گزری ہوں۔۔۔یہ بہت تکلیف دہ ہے‘۔
لیٹبی نے مزید کہا کہ گرفتاری کے بعد ان میں پی ٹی ایس ڈی کی تشخیص ہوئی اور انھیں نفسیاتی مدد حاصل ہے۔
جیوری کو پہلے وہ نوٹس دکھائے جا چکے ہیں جو پولیس کو تلاشی کے دوران لیٹبی کے گھر سے ملے تھے
جیوری کو پہلے ہی وہ نوٹس دکھائے جا چکے ہیں جو پولیس کو تلاشی کے دوران لیٹبی کے گھر سے ملے تھے۔
عدالت کو بتایا گیا ہے کہ لیٹبی کےخیال میں انھوں نے وہ نوٹ دو سال پہلے اس وقت لکھا تھا، جب انھیں ہسپتال کے اس یونٹ سے نکال دیا گیا تھا۔
ان کے وکیل بیرسٹر مائرز نے لیٹبی سے پوچھا کہ انھوں نے ’اتنا اچھا نہیں‘ کیوں لکھا تھا۔
لیٹبی نے عدالت کو بتایا ’مجھے لگتا ہے کہ یہ اس وقت میری خود کے بارے میں سوچ اور احساس تھا۔‘
یہ پوچھے جانے پر کہ انھوں نے کیوں لکھا تھا کہ ان کا کبھی کوئی خاندان نہیں ہوگا، انھوں نے کہا ’اس وقت میں اپنے لیے کوئی مستقبل نہیں دیکھ پا رہی تھی۔۔۔ مجھے کوئی امید نہیں تھی۔۔۔ ساری صورتحال سے بعض اوقات صرف نا امیدی محسوس ہوتی تھی۔‘
یہ بھی پڑھیے
جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے ’میں بری ہوں، میں نے یہ کیا‘ کیوں لکھا تھا، لیٹبی نے کہا کہ انھوں نے محسوس کیا کہ وہ ’کسی نہ کسی طرح نااہل تھی اور کچھ غلط کیا تھا جس سے وہ بچے متاثر ہوئے تھے‘۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے یہ احساس ہوتا تھا کہ میں کسی نہ کسی طرح ذمہ دار ہوں۔‘
لیٹبی نے کہا کہ جب انھوں نے نوٹ لکھا تو وہ اپنی ذہنی صحت کے مسائل سے ’نبرد آزما تھی‘ اور یہ ان کے لیے ہر وہ چیز بیان کرنے کا ایک طریقہ تھا جسے وہ محسوس کر رہی تھیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ نرس ہونے کی کتنی قدر کرتی ہیں، تو انھوں نے جواب دیا ’بے حد، یہ سب کچھ تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ ’ہر ممکن کورس پر جاتی تھی تاکہ میں بہترین بن سکوں‘۔
لیٹبی نے جیوری کو بتایا کہ جون 2015 اور جون 2016 کے درمیان یونٹ ’نمایاں طور پر مصروف‘ تھا، اور بہت زیادہ بچے ایسے تھے جن کی ’ضروریات پیچیدہ تھیں‘، لیکن عملے کی تعداد کو تبدیل نہیں کیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ یونٹ میں کسی بچے کی موت سب کو متاثر کرتی تھی اور ’ماحول میں ایک قابل ذکر تبدیلی‘ آجاتی تھی۔
لیٹبی نے کہا کہ ایسی صورتحال میں ادارے کی جانب سے کوئی باضابطہ سپورٹ نہیں کی جاتی تھی اور عملہ صرف ’ایک دوسرے پر انحصار کرتا تھا‘۔
لیٹبی نے مزید کہا کہ ’آپ کو آگے بڑھنا ہوتا ہے اور جن دوسرے بچوں کی آپ دیکھ بھال کر رہے ہیں ان کے لیے پروفیشنل ہونا پڑتا ہے۔‘
عدالت کا احوال
میں یہاں مانچسٹر کراؤن کورٹ میں عدالت نمبر سات میں موجود صرف پانچ رپورٹرز میں سے ایک ہوں۔ اس مقدمے میں دلچسپی کی سطح کی وجہ سے، مقدمے کی سماعت کی کوریج کرنے والے زیادہ تر لوگ ایک مختلف عمارت میں موجود ہیں اور ویڈیو لنک پر دیکھ رہے ہیں۔
گذشتہ چھ ماہ سے لوسی لیٹبی جیل کے افسران کے حصار میں شیشے کے پیچھے بیٹھی کارروائی دیکھ رہی تھیں۔
اب انھوں نے وہاں سے عدالت کے کٹہرے تک کا مختصر سفر طے کیا ہے، اور یہ پہلا موقع ہے کہ میں انھیں قریب سے دیکھ رہا ہوں کیوں کہ میری سیٹ کٹہرے سے قریب ہے۔
وہ اب اس جیوری کے بالکل سامنے بیٹھی ہیں جو ان کی قسمت کا فیصلہ کرے گی۔
جھ ماہ تک استغاثہ کی جانب سے شواہد پیش کیے جانے کے بعد، یہ پہلا موقع ہے کہ جیوری لیٹبی کو براہ راست سن رہی ہے۔
کام سے باہر زندگی
لیٹبی سے عملے کے دیگر ارکان کے ساتھ ان کے تعلقات اور یہ بھی پوچھا گیا کہ وہ کام سے باہر اپنا وقت کیسے گزارتی تھیں۔
نرس نے جیوری کو بتایا کہ ان کی ’کافی فعال سماجی زندگی‘ تھی اور وہ ’باقاعدگی سے سالسا کلاسز، دوستوں کے ساتھ لنچ، دوستوں کے ساتھ چھٹیاں اور جِم جاتی تھیں۔‘
جب ان سے یونٹ کے ایک ڈاکٹر کے ساتھ تعلقات کے بارے میں پوچھا گیا، جن کا قانونی وجوہات کی بنا پر نام شائع نہیں کیا جا سکتا، تو انھوں نے اسے ایک ’قابل اعتماد دوست‘ قرار دیا۔
یہ پوچھنے پر کہ کیا یہ دوستی سے بڑھ کر کچھ تھا، انھوں نے جواب دیا ’نہیں‘۔
سوشل میڈیا پر سرچ
عدالت کو ایک ایک ایسی دستاویز بھی دکھائی گئی جس میں لیٹبی کی جانب سے اپنے فیس بک پر جون 2015 اور جون 2016 کے درمیان کی گئی سرچز کی تفصیلات ہیں۔
جون 2015 میں، لیٹبی نے فیس بک پر کل 113 سرچز کیں، جن میں ان کے والدین اور عملہ بھی شامل تھا۔
اسی سال اگست میں لیٹبی نے 175 سرچز کیں۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ ’ہمیشہ اپنے فون پر‘ رہتی تھیں اور ’عمومی تجسس کی وجہ سے‘ سرچ کرتی تھیں، اور یہ کہ یہ سب ’میرے لیے بالکل معمول کا عمل‘ تھا۔
مقدمے کی سماعت جاری ہے۔
Comments are closed.