کراچی میں غیرقانونی تعمیرات کے خلاف دائر درخواستوں پر سندھ ہائی کورٹ نے سابق ڈی جی ایس بی سی اے یاسین شر کے قابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس ندیم اختر کی سربراہی میں کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کیس کی سماعت ہوئی، دورانِ سماعت ڈی جی ایس بی سی اے اسحاق کھوڑو و دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا؟ غیر قانونی تعمیرات نہ گرانے والے افسران کے خلاف کیا کارروائی کی؟
جسٹس ندیم اختر نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افسران کے خلاف شوکاز کے بعد کوئی کارروائی ہی نہیں کی گئی، اس کا مطلب تو یہی ہے کہ شوکاز وغیرہ صرف کورٹ کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔
عدالت نے کہا کہ ایس بی سی اے ایک تو کوئی کام نہیں کرتا، دوسرا ادارے میں کرپٹ لوگوں کو اہم عہدوں پر بٹھایا ہوا ہے۔
عدالت نے اسحاق کھوڑو کو جھاڑ پلا دی اور کہا کہ ڈی جی صاحب! آپ کو تو معطل ہونا چاہیے اسی وقت، آپ اپنی غلطی ماننے کے بجائے غلط چیزوں پر پردہ ڈال رہے ہیں۔
ڈی جی ایس بی سی اے نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ سر ہم نے انجینئر عامر خان کو معطل کر دیا تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معطل کیا ہوتا ہے؟ اس کو تو نوکری سے برطرف کر دینا چاہیے تھا۔
جسٹس ندیم اختر نے کہا کہ معطلی کوئی سزا ہوتی ہے؟ یہ تو اپنی پوری تنخواہ اور مراعات لے رہا ہے۔
عدالت نے ڈپٹی ڈائریکٹر شاہد شیخ کو روسٹرم پر طلب کر لیا اور ان سے استفسار کیا کہ آپ کا ارادہ ہے غیر قانونی تعمیرات کو گرانے کا؟
ڈپٹی ڈائریکٹر شاہد شیخ نے عدالت کو بتایا کہ جی سر، ان شاء اللہ ایک مہینے کا ٹائم دیں میں پیشرفت رپورٹ جمع کرادوں گا۔
جسٹس ندیم اختر نے شدید برہم ہوئے اور کہا کہ آپ کوئی کام بھی کریں گے یا آفس میں بیٹھ کر صرف ان شاء اللّٰہ، ان شاء اللّٰہ کرتے رہیں گے۔
عدالت نے ڈی جی ایس بی سی اے کو فوری طور پر عدالتی احکامات پر عمل درآمد کا حکم دے کر سابق ڈی جی ایس بی سی اے یاسین شر کے قابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری جاری کر دیے۔
عدالت نے غیرقانونی تعمیرات میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کر کے پیش رفت رپورٹ بھی طلب کر لی۔
عدالت نے ڈی جی ایس بی سی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ملوث افسران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی نہیں کی تو ہم آپ کے خلاف کارروائی کریں گے۔
عدالت نے درخواستوں پر مزید سماعت 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔
Comments are closed.