سپریم ایپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم کے بیانِ حلفی پر خبر شائع کرنے کے معاملے میں عدالتی نوٹس کے باوجود سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم آج غیر حاضر رہے جبکہ ان کے صاحبزادے عدالت میں پیش ہوئے۔
جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری، دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللّٰہ نیازی بھی عدالت میں پہنچ گئے۔
سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے صاحبزادے رانا شمیم نے بتایا کہ والد صاحب رات اسلام آباد پہنچے ہیں، ان کی طبیعت ٹھیک نہیں۔
رانا شمیم کے بیٹے نے عدالتی عملے سے کمرۂ عدالت میں ویڈیو چلانے کی اجازت مانگ لی اور کہا کہ ہم ایک ویڈیو عدالت میں چلانا چاہتے ہیں، اس کے لیے لیپ ٹاپ لا سکتے ہیں؟
عدالتی عملے نے جواب دیا کہ سماعت شروع ہو گی تو جج صاحب سے پوچھ لیجیئے گا۔
دورانِ سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو روسٹرم پر بلا لیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن نے مخاطب ہو کر کہا کہ بہت بھاری دل کے ساتھ آپ کو سمن کیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سوشل میڈیا اور نیوز پیپر میں فرق ہوتا ہے، اخبار کی ایڈیٹوریل پالیسی اور ایڈیٹوریل کنٹرول ہوتا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اس ہائی کورٹ کے جج سے متعلق بات کی گئی جو بلاخوف و خطر کام کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر میں اپنے ججز کے بارے میں پر اعتماد نہ ہوتا تو یہ پروسیڈنگ شروع نہ کرتا، اس عدالت کے ججز جوابدہ ہیں اور انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اگر عوام کا عدلیہ پر اعتماد نہ ہو تو پھر معاشرے میں انتشار ہو گا، میرے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا مہم چلائی گئی کہ یوکے میں فلیٹ لیا ہے، اگر ایک سابق چیف جج نے کوئی بیانِ حلفی دیا تو آپ وہ فرنٹ پیج پر چھاپیں گے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کو شوکاز نوٹس جاری کر دیئے۔
Comments are closed.