سابق امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف مقدمے میں کیا ہو رہا ہے؟ سات اہم سوالوں کے جوابات
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر نیویارک کی گرینڈ جیوری کی جانب سے فرد جرم عائد کرنے کے فیصلے کے بعد وہ مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنے والے پہلے امریکی صدر بن گئے ہیں۔
ان پر الزامات کو ابھی تک منظرعام پر نہیں لایا گیا ہے، اس لیے ہمیں نہیں معلوم کہ ڈسٹرکٹ اٹارنی سابق صدر پر کیا فرد جرم عائد کرنا چاہتے ہیں۔
فرد جرم منگل تک سیل رہے گی، منگل کو ان پر الزامات کا باضابطہ طور پرانکشاف کیا جائے گا۔
لیکن امکان ہے کہ اس مقدمے کا محور 2016 کی انتخابی مہم کے دوران ایک پورن سٹار کو دی جانے والی رقم کی ادائیگی ہو گی، جو مبینہ طور پر ٹرمپ کے ساتھ ان کے تعلقات کے دعوؤں کے بعد پورن سٹار کی خاموشی خریدنے کے لیے ادا کی گئی تھی۔
یہاں ہم ان سات سوالوں کا جائزہ لے رہے ہیں جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کریں گے کہ ٹرمپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
فرد جرم کیا ہے؟
جمعرات کو ایک گرینڈ جیوری نے ڈونلڈ ٹرمپ پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے ووٹ دیا۔
اس کا مطلب ہے فرد جرم یعنی رسمی طور پر ایک تحریری شکل میں لکھا الزام جو استغاثہ کی جانب سے ایک فرد پر لگایا گیا ہے جن کا ماننا ہے کہ اس شخص نے جرم کیا ہے۔ فرد جرم میں الزامات کے بارے میں بنیادی معلومات شامل ہوتی ہیں اور ٹرمپ کے معاملے میں اس میں سنگین الزامات شامل ہیں۔
یہ ایسے جرائم ہیں جن کی سزا ایک سال یا اس سے زیادہ کی قید ہو سکتی ہے۔
پراسیکیوٹر کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کے برعکس یہ فرد جرم نیویارک شہر میں مین ہیٹن کی ایک گرینڈ جیوری کے خفیہ ووٹ کا نتیجہ ہے۔
گرینڈ جیوری شہریوں کا ایک گروپ ہے جو گواہوں کی گواہی اور شواہد سنتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ آیا کسی شخص پر جرم عائد کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود ہیں یا نہیں۔
کیا ٹرمپ کو گرفتار کیا جائے گا؟
ضروری نہیں کہ ہمیشہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد ٰگرفتاری ہو۔ لیکن استغاثہ کی جانب سے ٹرمپ کے وکلا سے رابطہ و مبینہ مذاکرات ہوئے ہیں اور سابق صدر کی ٹیم اور دیگر ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ وہ منگل کو گرفتاری دیں گے۔
ایسا کیسے ہو گا یہ ابھی تک واضح نہیں ہے، لیکن اگر وہ گرفتاری دیتے ہیں تو توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ان تمام مراحل سے گزریں گے جن سے کسی بھی شخص کو گرفتار کرتے وقت گزارا جاتا ہے۔
گرفتاری کے وقت انھیں ہتھکڑی بھی لگائی جا سکتی ہے۔
’پرپ واک‘ کیا ہے؟
اب جب کہ ٹرمپ پر فرد جرم عائد کی گئی ہے اور توقع ہے کہ وہ منگل کو خود کو پولیس کے حوالے کر دیں گے۔ انھیں پہلے نیویارک سٹی کی عدالتوں کے باہر کیمروں اور مائیکروفونوں سے لدے صحافیوں کے ہجوم سے گزرنا پڑے گا۔
یہ وہ عمل ہے جسے ’پرپ واک‘ کہا جاتا ہے۔
کچھ مشتبہ افراد کو پولیس ہتھکڑیوں میں لے جاتی ہے، جبکہ دوسروں کو خود ہی چل کر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔
واک کے دوران لی گئی تصاویراکثرمخصوص مقدموں کے یادگار لمحات بن جاتے ہیں۔ جب ہالی ووڈ کے سابق موگول ہاروی وائنسٹائن پر دو خواتین کے ساتھ زیادتی اور مجرمانہ جنسی فعل کا الزام عائد کیا گیا توانھیں ہتھکڑیوں میں نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کی عمارت میں لے جایا گیا تھا۔
کیمروں میں قید اس لمحے کو اب بھی ’می ٹو‘ موومنٹ کی سب سے مشہورتصاویر میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
ایک اور مشہور پرپ واک میں آئی ایم ایف کے سابق سربراہ ڈومینیک سٹراس کاہن شامل تھے، جن پر ایک گھریلو ملازمہ کے ساتھ جنسی زیادتی اور ریپ کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ تصویرمیں وہ پسینے سے شرابور اور تھکے ہوئے نظر آئے اور بعد میں انھوں نے شکایت کی کہ اس طرح ہتھکڑیاں لگا کر میڈیا کے سامنے پریڈ کروانا غیر منصفانہ ہے۔
سٹراس کاہن نے 2013 میں امریکی نیوز چینل سی این این کو بتایا کہ ’آپ اس وقت تک بے گناہ ہیں جب تک آپ کو سزا نہیں مل جاتی۔۔۔ آپ کو ہر کسی کے سامنے ایک مجرم کے طور پر دکھایا جاتا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ سچ ہے یا نہیں۔‘
استغاثہ کی طرف سے ان کے خلاف الزامات کو خارج کر دیا گیا تھا، حالانکہ انھوں نے آئی ایم ایف میں اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا اور خود پر الزام لگانے والی خاتون کے ساتھ کورٹ سے باہر صلح کر لی تھی۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے متعدد ساتھیوں کو بھی پرپ واک کرنا پڑی ہے۔
اتفاق سے یہ ٹرمپ کے مشیر اور سابق امریکی اٹارنی روڈی گیولیانی تھے جنھوں نے 1980 اور 90 کی دہائیوں میں پرپ واک کو مقبول بنایا۔ وہ کسی مدعا علیہ کو ہتھکڑیوں میں میڈیا کے سامنے پیش کرنے کی اہمیت کو جانتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
جج کے سامنے پیشی
توقع ہے کہ ٹرمپ منگل کوجج کے سامنے پیش ہوں گے۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب ٹرمپ کے خلاف الزامات کو کھلی عدالت میں پڑھ کر سنایا جائے گا۔
ٹرمپ یا ان کی طرف سے ان کی وکیل ایک درخواست داخل کریں گی، یعنی ٹرمپ سے پوچھا جائے گا کہ انھوں نے جرم کیا ہے یا نہیں۔ یہ تب ہوتا ہے جب مدعا علیہ یا تو مجرم ثابت ہوتا ہے یا مجرم نہیں ہوتا ہے۔ کمرہ عدالت میں کیمرے آ سکتے ہیں، لیکن صرف اس صورت میں جب جج انھیں اجازت دیتا ہے۔
پیشی کے بعد ان کی رہائی کی توقع ہے، جس کا مطلب ہے کہ فرد رضاکارانہ طور پرعدالت میں واپس آنے اور مقدمے کی سماعت کے لیے حاضر ہونے کا وعدہ کرتا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق فرد جرم میں ممکنہ طور پرغیرمتشدد جرم ہوں گے اور نیویارک کے قانون کے مطابق استغاثہ ایسے مقدمات میں مدعا علیہ کو ضمانت پر رکھنے کی درخواست نہیں کر سکتا۔
ٹرمپ پر الزامات کیا ہیں؟
ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ ٹرمپ کے خلاف ان کے سابق وکیل مائیکل کوہن کو مبینہ طور پر 2016 کے انتخابات سے قبل پورن سٹار سٹورمی ڈینیئلز کو خاموش رہنے کے لیے دی جانے والی رقم کے حوالے سے تحقیقات کی جا رہی تھیں۔
پورن سٹار نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا ٹرمپ کے ساتھ 2006 میں افیئر تھا اسی لیے ٹرمپ ان کی خاموشی خریدنا چاہتے تھے۔ ادائیگی غیر قانونی نہیں تھی لیکن استغاثہ کا کہنا ہے کہ جب ٹرمپ نے کوہن کو معاوضہ دیا تو ادائیگی کا ریکارڈ کہتا ہے کہ یہ قانونی فیس تھی۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ ٹرمپ کاروباری ریکارڈ کو غلط ثابت کر رہے ہیں۔ ایک اور بڑی ادائیگی مبینہ طور پر پلے بوائے ماڈل کیرن میک ڈوگل کو کی گئی تھی جس نے ٹرمپ کے ساتھ افیئر کا دعویٰ کیا تھا۔
ٹرمپ پر اور کیا الزامات لگ سکتے ہیں؟
اگرچہ فرد جرم ابھی تک سیل ہے، تاہم اس کے علاوہ دیگر ممکنہ الزامات بھی سامنے لائے جا سکتے ہیں۔
چھ جنوری 2021 کو ٹرمپ کے حامیوں نے یو ایس کیپیٹل ہل پراس وقت دھاوا بول دیا جب انھوں نے ایک تقریر کی جس میں ہجوم کو لڑنے کی تلقین کی۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا ٹرمپ کو حملے میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک اور ممکنہ الزام ٹرمپ کے فلوریڈا کے گھر سے ملنے والی خفیہ دستاویزات کی تحقیقات میں ممکنہ رکاوٹ کا ہو سکتا ہے۔
سابق امریکی صدر سے جو بائیڈن کی 2020 کی جیت کو بدلنے کے لیے جنوبی ریاست جارجیا میں حکام پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھی تفتیش کی جا رہی ہے، جس میں ایک ٹیپ شدہ فون کال بھی شامل ہے جس میں انھوں نے سیکریٹری آف سٹیٹ سے کہا تھا کہ وہ نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے کافی تعداد میں ووٹ ڈھونڈیں۔
فرد جرم عائد ہونے پر کیا وہ 2024 میں صدر کا انتخاب لڑ سکتے ہیں؟
جی بالکل، وہ انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ سزا یا فرد جرم ٹرمپ کو صدارتی انتخاب لڑنے سے نہیں روکے گی۔ امریکی آئین کے مطابق کوئی مجرمانہ ریکارڈ صدر بننے کی اہلیت کے لیے مقرر کردہ معیارات میں شامل نہیں ہے۔
ایسے افسران جن کا مواخذہ کیا گیا ہے اور انھیں اعلیٰ جرائم اور بددیانتی کے مرتکب قرار دیا گیا ہے انھیں مستقبل کے عہدے سے روکا جا سکتا ہے، لیکن امریکی سینیٹ نے ٹرمپ کو ان کے مواخذے کے دونوں مقدموں میں بری کر دیا تھا۔
بی بی سی کے شمالی امریکہ کے نامہ نگار اینتھونی زورچر کا کہنا ہے کہ ’امریکی قانون کسی بھی امیدوار کو اس بنیاد پر مہم چلانے یا صدر بننے سے نہیں روکتا جس پر کوئی جرم ثابت ہوا یا چاہے وہ جیل میں ہی کیوں نہ ہو۔‘
Comments are closed.