سابق امریکی صدر جان کینیڈی کا قتل: 60 سال بعد ایک ’پراسرار گولی‘ کا انکشاف جس نے نئے سوالات کو جنم دیا

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ٹیکساس کے گورنرآگے جبکہ جان ایف کینیڈی اور جیکی کینیڈی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے

  • مصنف, کائلا ایپسٹین
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

چھ دہائیوں کے بعد امریکی تاریخ کے ایک ایسے واقعے کے بارے میں نئی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں جسے ہر زاویے سے جانچا جا چکا ہے۔ یہ واقعہ سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا قتل تھا۔

پال لانڈس امریکی سیکرٹ سروس کے ایجنٹ تھے جنھوں نے امریکی صدر کی ہلاکت کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ 88 سالہ پال نے اپنی آنے والی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے جان ایف کینیڈی کی گاڑی سے ملنے والی ایک گولی ہسپتال میں صدر کے سٹریچر پر چھوڑ دی تھی۔

1960 کی دہائی میں ہونے والے اس قتل کے مقدمے میں شاید یہ آپ کو بہت چھوٹی سی بات لگے لیکن ایسے افراد کے لیے، جو دہائیوں سے اس کیس کے ہر ثبوت کو دیکھتے رہے ہیں، پال لانڈس کا یہ دعوی ایک انتہائی اہم اور غیر متوقع پیشرفت ہے جو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔

واضح رہے کہ عرصہ دراز سے جان ایف کینیڈی کا قتل سازشی نظریوں کا مرکز رہا جس میں ایک سوال یہ بھی اٹھتا رہا کہ اس واردات میں کتنے لوگ شامل تھے، اس کے پیچھے دراصل کون تھا اور صدر کو کتنی گولیاں لگی تھیں۔

امریکہ میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اس کیس کے اصل حقائق سرکاری موقف سے مختلف ہیں اور چند مورخین کے مطابق قتل کی اس واردات کے بعد امریکی عوام کا حکومت پر اعتماد کم ہونا شروع ہو گیا۔

اب ایک سابق سیکرٹ سروس کے ایجنٹ کے دعووں سے بھرپور نئی کتاب اس نہ ختم ہونے والی بحث کو مزید بھڑکا سکتی ہے۔

مورخ جیمز روبنالٹ نے پال لانڈس کے ساتھ اس کتاب پر کام کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ 1963 میں قتل کے بعد سے ’یہ اب تک کی سب سے اہم خبر ہے۔‘

پرانے مقدمے میں نئی تفصیلات

جان ایف کینیڈی کے قتل کے بنیادی حقائق طےشدہ ہیں اور سب کو معلوم ہیں۔

11 نومبر 1963 کو صدر جان ایف کینیڈی اپنی اہلیہ جیکی کینیڈی اور ٹیکساس ریاست کے گورنر جان کونالی جونیئر اور ان کی اہلیہ کے ساتھ ایک کنورٹیبل گاڑی میں ڈالاس کے ڈیلی پلازہ کے سامنے سے گزر رہے تھے جب اچانک گولیاں چلیں۔

صدر کینیڈی کو سر اور گردن جبکہ گورنر کو پیٹھ پر گولی لگی۔ جان ایف کینیڈی کو قریبی پارک لینڈ ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی موت واقع ہوئی۔ اس واقعے میں گورنر زخمی ہوئے لیکن زندہ بچ گئے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ڈیلاس کے ایک پولیس اہلکار نے صدر جان ایف کینیڈی کو قتل کرنے کے لیے استعمال ہونے والی رائفل اٹھا رکھی ہے

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

حکومتی انکوائری کے بعد وارن کمیشن رپورٹ میں لی ہاروی اوسوالڈ نامی شخص کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ شواہد نے بھی اس کی تصدیق کی۔ بعد میں لی ہاروی کو پولیس کی حراست میں ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایک ہی گولی صدر جان ایف کینیڈی کے جسم سے گزرتی ہوئی گورنر کونالی کو لگی تھی۔ یہ اس بات کی وضاحت بھی تھی کہ اس حملے میں ایک ہی مسلح شخص کا کردار تھا۔ اس نتیجے کو ’سنگل بلٹ تھیوری‘ یا ’جادوئی گولی کا نظریہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

کمیشن نے اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے اس حقیقت پر بھی کسی حد تک انحصار کیا کہ ہسپتال میں گورنر کونالی جس سٹریچر پر زیرعلاج تھے وہاں سے ایک گولی ملی تھی۔

اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ گولی کہاں سے آئی لیکن کمیٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ جس وقت ڈاکٹر گورنر کا علاج کر رہے تھے، اسی وقت یہ گولی ان کے جسم سے نکلی ہو گی۔

تاہم اس سرکاری موقف کے ناقدین نے جادوئی گولی کے نظریے پر یقین نہیں کیا کہ ایک ہی گولی دو افراد میں اتنے زخم کی وجہ ہو سکتی ہے۔

پال لانڈس کا یہ دعویٰ ایک گولے کی مانند گرا ہے کیونکہ ناصرف یہ ایک عینی شاید کا بالکل نیا بیان سامنے لایا ہے بلکہ بہت سے لوگوں کے نزدیک اس دعوے نے سنگل بلٹ تھیوری کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔

پال لانڈس کو کیا یاد ہے؟

اس دن پال لانڈس صدر کی اہلیہ جان کینیڈی کے ساتھ تھے۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو وہ صدر سے کچھ ہی فٹ دور تھے اور انھوں نے جان ایف کینیڈی کے سر پر گولی لگتے ہوئے دیکھا تھا۔

پھر بھگڈر مچ گئی اور پال لانڈس نے اس وقت جو کیا، وہ انھوں نے دہائیوں تک چند افراد کے علاوہ کسی کو نہیں بتایا۔

نیو یارک ٹائمز کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں پال نے بتایا کہ جب گاڑیوں کا قافلہ ہسپتال پہنچا تو انھوں نے صدر کی گاڑی میں ایک گولی پڑی ہوئی دیکھی۔

پال نے وہ گولی اٹھائی اور اپنی جیب میں رکھ لی۔ ان کے مطابق تھوڑی ہی دیر میں وہ ایمرجنسی میں صدر کے ساتھ تھے جہاں انھوں نے اس گولی کو جان ایف کینیڈی کے سٹریچر پر رکھ دیا تاکہ یہ بطور ثبوت صدر کے جسم کے ساتھ ہی رہے اور ذمہ دار لوگوں تک پہنچ جائے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہAFP/GETTY

،تصویر کا کیپشن

لی ہاروی اوسوالڈ

ان کا کہنا ہے کہ ’موقع واردات کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی بھی نہیں تھا اور یہ میرے لیے پریشان کن چیز تھی۔‘

’سب کچھ اتنا جلدی میں ہو رہا تھا اور مجھے ڈر تھا کہ میرے پاس ایک اہم ثبوت ہے جسے غائب یا ضائع نہیں ہونا چاہیے۔‘

تاہم وہ اس ثبوت کو خود اس سے پہلے کبھی سامنے نہیں لائے۔ انھوں نے کسی سرکاری رپورٹ میں اس کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس وقت وارن کمیشن نے ان کا انٹرویو کیا تھا۔

مورخ جیمز روبنالٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ (پال) بہت دیر سے سوئے نہیں ہوئے تھے اور اس وقت بھی ان کو مزید ڈیوٹی کرنی تھی جبکہ وہ نفسیاتی مسائل سے بھی متاثر تھے۔‘

جیمز کا کہنا ہے کہ ’پال اس گولی کے بارے میں بھول گئے۔ وہ اس وقت جو کچھ ہو رہا تھا اس میں کھو گئے۔‘

کئی سال تک پال نے جان ایف کینیڈی کے قتل کے بارے میں یا اس سے جڑے سازشی نظریوں کے بارے میں کچھ پڑھنے کی کوشش تک نہیں کی لیکن ایک وقت آیا جب انھوں نے اپنی کہانی دنیا کو سنانے کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیے

’پراسرار گولی‘

جن لوگوں نے پال لانڈس کا یہ دعویٰ سنا ہے انھوں نے مختلف نتائج اخذ کیے ہیں اور اس کہانی نے جواب فراہم کرنے سے زیادہ سوالات کو جنم دیا ہے۔

پال لانڈس کا اب یہ ماننا ہے کہ جو گولی ان کو ملی تھی، وہی گولی بعد میں گورنر کے سٹریچر سے ملی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ گولی صدر کی گاڑی میں پیوست ہوئی اور اس کے بعد گاڑی کے اندر ہی گر گئی۔

اگر ان کا خیال درست ہے تو جیمز کا کہنا ہے گورنر اور صدر کو ایک ہی گولی نہیں لگی۔

وہ مانتے ہیں کہ اس صورت میں یہ بحث پھر سے جنم لے سکتی ہے کہ کیا لی ہاروے اکیلا تھا۔

اپنے مضمون میں جیمز نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر دونوں افراد ایک گولی سے زخمی نہیں ہوئے تو کیا لی ہاروے اپنی رائفل سے اتنی تیزی سے دو گولیاں چلا سکتا تھا؟

لیکن پال لانڈس کے اس دعوے پر شک کرنے والے بھی ہیں جن میں سے ایک ان کے ایسے سابق ساتھی ہیں جو اس دن خود موجود تھے۔

کلنٹ ہل وہ مشہور سیکرٹ سروس ایجنٹ ہیں جنھوں نے گولی چلنے کے فوری بعد صدر کی گاڑی میں چھلانگ لگا کر ان کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ پال کے دعوے کو نہیں مانتے۔

انھوں نے این بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ وہ اس گولی کو صدر کے سٹریچر پر رکھتے ہیں۔ اگر اس دن کے شواہد، بیانات کو دیکھا جائے تو یہ ناقابل فہم ہے۔‘

جیرالڈ پوسنر صحافی ہیں جنھوں نے جان ایف کینیڈی کے قتل پر کتاب لکھی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ پال لانڈس کا موقف دراصل سنگل بلٹ تھیوری کو ہی ثابت کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اب لوگوں کو یہ سمجھ آئے گی یہ گورنر کے سٹریچر پر ملنے والی گولی کہاں سے آئی۔‘

جیرالڈ کا کہنا ہے کہ پال کے دعوی کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے لیکن ساتھ ہی وہ 60 سال بعد پال لانڈس کی یادداشت پر شک کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

جیرالڈ نے ہسپتال کی ایمرجنسی میں موجود لوگوں کے انٹرویو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’وہاں کسی نے بھی پال لانڈس کی موجودگی کا ذکر نہیں کیا۔‘

جیرالڈ کہتے ہیں کہ اتنے عرصے تک پال کا اس بات کو چھپا کر رکھنا بھی سوال پیدا کرتا ہے۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’حقیقت یہ ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے ایک گولی دیکھی، اس کو اٹھا کر جیب میں رکھا اور پھر ہسپتال سے نکلنے سے پہلے میں نے سٹریچر پر رکھ دی۔ یہ یا تو سچ ہے یا نہیں ہے۔‘

پال لانڈس کا دعوی کیا ایک پرانے نظریے کی توثیق کرے گا یا نہیں، اہم بات یہ ہے کہ یہ معاملہ صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کا ہے اور اتنے سال بعد امریکی تاریخ کے ایک عظیم سانحے پر ان کے دعوے کی وجہ سے بحث ہو گی۔

جیرالڈ کا کہنا ہے کہ ’کیا کوئی اس معاملے کو ہر کسی کے اطمینان کے مطابق 100 فیصد حل کر سکے گا؟ نہیں۔ یہ ایک ایسا کیس ہے جو زیادہ تر لوگوں کے لیے کبھی بند نہیں ہو گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ