سابق افغان حکومت کے عہدیداران نے امریکا اور دیگر ممالک میں لاکھوں ڈالر مالیت کی پرتعیش جائیدادیں خریدی ہیں۔
امریکی اخبار نے اپنی خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مذکورہ عہدیداران حکومت ختم ہوتے ہی بیرون ملک واقع اپنے پرتعیش فلیٹس اور گھروں میں منتقل ہوگئے تھے۔
عوامی دستاویزات، انٹرویوز اور دیگر ریکارڈ سے معلوم ہوا ہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی کی حکومت میں شامل اہم حکومتی عہدیداران کیلیفورنیا، یورپ، متحدہ عرب امارات اور ترکی میں رہائش پذیر ہیں۔
ان حکومتی شخصیات میں سابق وزرا، بااثر سرکاری عہدیداران اور افغانستان کی سیکیورٹی اور خارجہ امور سے متعلق مرکزی عہدیداران شامل ہیں۔
کچھ عہدیداران کے پاس غیر ملکی شہریت اور اثاثے تھے جس کی وجہ سے وہ باآسانی افغانستان سے باہر منتقل ہوئے۔
کئی شخصیات نے بیرون ملک جائیدادوں میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی اور جیسے ہی طالبان نے زور پکڑا، یہ حکومتی شخصیات اپنے اہلخانہ سمیت بیرون ملک منتقل ہوگئیں۔
واضح رہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی پر بھی یہ الزام لگتا ہے کہ وہ پچھلے سال اگست کے وسط میں صدارتی محل سے نکلتے ہوئے سرکاری خزانے کی بڑی رقم اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
افغانستان کے سابق مشیر قومی سلامتی حمداللّٰہ محب کے پاس برطانوی شہریت ہے جبکہ ان کی اہلیہ امریکی شہری ہیں۔
حمداللّٰہ محب اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ امریکی ریاست فلوریڈا کے گھر میں منتقل ہوچکے ہیں۔
امریکا کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق افغانستان کے سابق وزیر خزانہ ایکلیلی حکیمی نے کیلیفورنیا میں 10 جائیدادیں خریدیں۔
ان جائیدادوں کی قیمت ایک کروڑ ڈالر سے زائد ہے۔ رواں سال انہوں نے امریکا میں 11 لاکھ ڈالر کا نیا فلیٹ خریدا ہے۔
افغانستان کے ایک اور سابق وزیر خزانہ خالد پائندہ کے واشنگٹن میں دو گھر ہیں۔ ان کی مالیت 10 لاکھ ڈالر سے زائد ہے۔
افغانستان کے سابق نائب صدر رشید دوستم ترکی میں رہائش پذیر سب سے اعلیٰ افغان عہدیدار ہیں۔ وہ انقرہ کے مہنگے ترین علاقے میں واقع کوٹھی میں رہتے ہیں۔
دبئی کے پراپرٹی ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سابق افغان وزیر معیشت مصطفیٰ مسطور کا ’’دبئی مرینا‘‘ میں شاندار فلیٹ ہے۔
افغان صوبے بلخ کے سابق گورنر عطا محمد نور اب دبئی کے مہنگے ترین علاقے ’’دی پام‘‘ میں رہتے ہیں۔
Comments are closed.