سیگار: سابق افغان صدر پر ملک سے کئی ملین ڈالر لے جانے کا الزام غلط ہے
سابق افغان صدر اشرف غنی
افغانستان میں تعمیر نو کی تحقیقات کرنے والے امریکی ادارے ‘سیگار’ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی ملک سے نکلتے وقت ایک ملین ڈالر سے بھی کم رقم ساتھ لے کر گئے تھے۔
گزشتہ برس 15 اگست کو کابل میں طالبان کے داخل ہونے پر صدر غنی کچھ قریبی ساتھیوں اور محافظوں کے ساتھ افغانستان سے فرار ہو گئے تھے۔
سیگار کا کہنا ہے کہ اس بارے میں جو ثبوت سامنے آئے ہیں ان کے مطابق سابق صدر تین ہیلی کاپٹروں میں ’500 ہزار ڈالر‘ لے کر گئے تھے۔
سیگار نے یہ رپورٹ کے لیے ایوان صدر کے حکام، قومی سلامتی کونسل، وزارت دفاع، اور کئی دوسرے سابق حکام سے رابطے کے بعد تیار کی ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ اس نے اس سلسلے میں سابق صدر اشرف غنی کو بھی کچھ سوال بھیجے تھے تاہم انھوں نے جواب نہیں دیا۔
سیگار کے سربراہ جان سوپکو نے اس مختصر رپورٹ میں کہا ہے کہ ’افغان حکومت کے خاتمے کے بعد بہت سے ذرائع ابلاغ میں ایسی رپورٹیں شائع ہوئیں جن کے مطابق سابق صدر محمد اشرف غنی اور اعلی مشیر افغانستان سے نکلتے وقت کئی ملین ڈالر اپنے ساتھ ازبکستان لے گئے تھے۔‘
ادارے کا کہنا ہے کہ سابق صدر اور ان کے ساتھی کابل میں طالبان کے آنے کے بعد اپنے سے پچھلے دعوؤں کے برعکس کئی ملین ڈالر نہیں لے گئے تھے۔
ایوان صدر میں رہ جانے والی رقم
سیگار کی رپورٹ کے مطابق انھیں ایسی غیر مصدقہ اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں جن کے مطابق ایوان صدر میں موجود تقریباً پانچ ملین ڈالر سابق صدر کے خصوصی محافظوں کے ہاتھ لگ گئے تھے اور طالبان کے صدارتی محل کی جانب پیش قدمی کے وقت ان محافظوں کے درمیان اس رقم کی تقسیم پر جھگڑا بھی ہوا تھا اور یہ رقم ایوان صدر کے زیر استعمال تین چار گاڑیوں میں وہاں سے لے جائی گئی تھی۔
کچھ عرصے قبل طالبان وزیر اعظم نے بھی کہا تھا کہ ایوان صدر پر طالبان کے قبضے کے بعد انھیں وہاں پر تقریباً ایک ملین ڈالر نقد ہاتھ آئے تھے۔
سیگار کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغان حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) پر بھی کئی ملین ڈالر خرد برد کرنے کا الزام لگا تھا۔
سیگار کا کہنا ہے کہ ایک ذریعے کے مطابق 2021 میں این ڈی ایس کے آپریشنز کے لیے 70 ملین ڈالر کی نقد رقم مختص کی گئی تھی۔ اندازہ ہے کہ اس کا بڑا حصہ طالبان کے خلاف کارروائیوں پر صرف ہوا تھا۔
اس ذریعے کے مطابق افغان حکومت کے آخری ایام میں یہ رقم عوام میں تقسیم کی گئی تھی تاکہ وہ ہتھیار خرید کر مقامی سطح پر اپنی حفاظت کر سکیں۔
لیکن ایک اور سابق اہلکار نے سیگار کو بتایا ہے کہ 14 اگست کو، یعنی سقوط کابل سے ایک روز قبل، یہ رقم گم ہوگئی تھی، البتہ افغانی کرنسی موجود تھی۔
رقم کس کے پاس تھی؟
سیگار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اشرف غنی کے افغانستان سے نکلتے وقت دو اہلکاروں کے پاس رقم تھی۔ رپورٹ میں فراہم کردہ معلومات کے مطابق ایوان صدر کے ایک محافظ کے پاس ایک بکس میں 200 ہزار ڈالر تھے۔
اسی طرح قومی سلامی کونسل کے ایک سابق اہلکار کے پاس پرواز کرتے وقت ایک بکس میں 240 ہزار ڈالر تھے۔
بعض ذرائع نے سیگار کو بتایا ہے کہ افغانستان سے نکلتے وقت ہر شخص کے پاس پانچ سے 10 ہزار ڈالر تھے۔
سیگار کی رپورٹ کے مطابق سابق صدر، ان کی بیوی اور ساتھ گئے افراد کو ازبکستان کے ہوائی اڈے سے متحدہ عرب امارات تک لے جانے کے لیے ایک ہوائی جہاز کو 120 ہزار ڈالر دیے گئے تھے اور یہ ادائیگی اسی رقم سے کی گئی تھی۔
بعض روسی ذرائع نے اس وقت انکشاف کیا تھا کہ کابل سے جاتے وقت اشرف غنی تین ہیلی کاپٹروں میں اپنے ساتھ 60 ملین ڈالر لے کر گئے تھے۔
سابق صدر نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا تھا۔
گزشتہ برس 15 اگست کو طالبان کابل میں داخل ہوئے تھے
چند روز قبل متحدہ عرب امارات نے اعلان کیا تھا کہ اس نے سابق افغان صدر اور ان کے گھر والوں کا ’انسان دوستی‘ کی بنیاد پر خیر مقدم کیا تھا اور وہ اس وقت وہیں رہائش پذیر ہیں۔
کابل سے جانے کے بعد اشرف غنی نے ایک وڈیو پیغام میں ان الزامات کی تردید کی تھی وہ کئی ملین ڈالر ساتھ لے گئے ہیں۔
انھوں نے کہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ یا کسی دوسرے خود مختار ادارے سے کروائی جانے والی شفاف تحقیقات میں مکمل تعاون کرنے کو تیار ہیں۔
تاہم انھوں نے اس سلسلے میں سیگار کے ارسال کردہ سوالات کا اب تک جواب نہیں دیا ہے۔
اکتوبر 2021 میں سیگار نے اعلان کیا تھا کہ وہ ان اطلاعات کی تحقیقات کرے گا جن میں کہا گیا تھا کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد اشرف غنی کابل سے بیرون ملک جاتے ہوئے اپنے ساتھ 169 ملین ڈالر لے گئے تھے۔
سیگار کے سربراہ جان سوپکو نے امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کو بتایا تھا کہ وہ اس الزام کی تحقیقات کرے گا۔
Comments are closed.