سابقہ پورن سٹار کو ’خاموشی اختیار کرنے کے عوض پیسے دینے‘ کے مقدمے میں اگر ٹرمپ قصوروار پائے گئے تو کیا ہو گا؟
یہاں ہم اس ضمن میں اس اہم کیس سے متعلق کچھ اہم نکات پر غور و خوض کر رہے ہیں تاہم اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ ’ہش منی‘ (یعنی کسی فرد کو کوئی مخصوص راز لیک نہ کرنے کے عوض پیسے دینا) کیس کیا ہے۔یہ ایک ذاتی نوعیت کا کیس ہے اور اس کا مرکزی کردار ایک خاتون ہیں جن کا نام سٹورمی ڈینیئلز ہے۔سٹورمی ڈینیئلز کا اصلی نام سٹیفنی گریگوری کلیفورڈ ہے جو پورن انڈسٹری کی ایک سابق اداکارہ، سکرین رائٹر اور ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کا دعوی ہے کہ سنہ 2006 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اُن کے ساتھ سیکس کیا تھا۔ اُس وقت ٹرمپ کی دوسری شادی کو ایک سال ہو چکا تھا۔سٹورمی ڈینیئلز کا دعویٰ ہے کہ سنہ 2016 میں جب ٹرمپ صدر کے امیدوار تھے تو انھوں نے اپنے وکیل مائیکل کوہن کے ذریعے انھیں ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر اِس شرط پر ادا کیے تھے کہ وہ ٹرمپ سے اپنے تعلق کو ظاہر نہیں کریں گی۔ٹرمپ اس تعلق سے انکار کرتے ہیں تاہم ان کی قانونی مشکل کی وجہ یہ نہیں اور نہ ہی اُن کی جانب سے سٹورمی ڈینیئلز کو پیسے کی ادائیگی ہے، جو امریکہ میں قانونی طور پر جرم نہیں۔دراصل ڈونلڈ ٹرمپ نے سرکاری دستاویزات میں پورن سٹار کو اِس رقم کی ادائیگی ریکارڈ میں بطور قانونی فیس ظاہر کیا اور نیو یارک کے پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ بزنس ریکارڈ میں غلط بیانی جرم ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
اگر مقدمے میں اگر ٹرمپ کو مجرم قرار دیا جاتا ہے تو آگے کیا ہو گا؟
سابق صدر مسٹر ٹرمپ پورے مقدمے کی سماعت کے دوران ضمانت پر رہا رہے ہیں۔ اگر جیوری کے فیصلے میں انھیں قصوروار قرار دیا جاتا ہے تو بھی شاید وہ ایک آزاد شخص کے طور پر عدالت سے باہر جا سکیں گے جب تک کہ جسٹس جوآن مرچن سزا سنانے کا شیڈول طے نہ کر دیں۔سزا سُنانے سے پہلے جج کئی عوامل پر غور کر سکتے ہیں۔ اِن عوامل میں مسٹر ٹرمپ کی عمر (جو اب 77 برس ہے)، سابقہ مجرمانہ ریکارڈ (صدر ٹرمپ ماضی میں کبھی عدالت سے سزا یافتہ نہیں ہوئے) اور ممکنہ طور پر ان کی جانب سے عدالت کے گیگ آرڈرز کی خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ گیگ آرڈر ایک قانونی حکم ہوتا ہے جس کے تحت مقدمے سے متلعق معلومات یا بیان عوام کو یا غیر مستند تیسرے فریق کو دینے کی ممانعت ہوتی ہے۔سزا کے طور پر اُن پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے، انھیں پروبیشن یا نگرانی میں رکھا جا سکتا ہے یا ممکنہ طور پر ایک مخصوص مدت کے لیے جیل بھیجا جا سکتا ہے۔اگر مسٹر ٹرمپ کو مجرم قرار دیے جانے والا فیصلہ آتا ہے تو وہ یقینی طور پر اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں مہینوں یا اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔اس کے بعد ان کی قانونی ٹیم کو اپیل ڈویژن اور ممکنہ طور پر اپیل کورٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس سب کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ مسٹر ٹرمپ فیصلہ سنائے جانے کے فوراً بعد ہتھکڑیوں کے ساتھ عدالت سے نکلیں گے، اور ٹرمپ کی قانونی ٹیم کی یہ توقع ہو گی کہ سزا کے خلاف اپیل کرتے وقت وہ ضمانت پر آزاد رہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
اپیل کس قانونی بنیاد پر کی جائے گی؟
سابقہ پورن سٹار سٹورمی ڈینیئلز کی جانب سے پیش کردہ شواہد اپیل کی بنیادوں میں سے ایک ہو سکتے ہیں۔ اس مقدمے میں سٹورمی ڈینیئلز کا سابق صدر ٹرمپ کے ساتھ مبینہ جنسی تعلق مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔نیویارک لا سکول کی پروفیسر اینا کومنسکی نے کہا کہ ’(سٹورمی ڈینیئلز کی طرف سے) فراہم کردہ تفصیلات اس کہانی کے لیے بہت ضروری نہیں ہے۔‘’ایک بات تو یہ ہے کہ سامنے آنے والی تفصیلات انھیں قابل اعتبار بناتی ہیں اور بطور پراسیکیوٹر آپ کافی تفصیلات فراہم کرنا چاہتے ہیں تاکہ جیوری اس پر یقین کریں جو وہ کہہ رہی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس میں ایک حد آتی ہے جہاں یہ تفصیلات غیر متعلقہ اور متعصبانہ ہو سکتی ہیں۔‘ٹرمپ کی دفاعی ٹیم نے سٹورمی ڈینیئلز کی گواہی کے دوران دو بار ان تفصیلات کو بے جا عدالتی تحقیقات قرار دیا جسے جج نے مسترد کر دیا۔اس کے علاوہ اس کیس میں ڈسٹرکٹ اٹارنی کی طرف سے اختیار کی گئی نئی قانونی حکمت عملی بھی مسٹر ٹرمپ کو اپیل کی بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔کاروبار کے ریکارڈ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا اس میں جعل سازی کرنا نیویارک میں ایک نچلی سطح کا جرم ہو سکتا ہے لیکن مسٹر ٹرمپ کو ایک دوسرے مجرمانہ اور سنگین الزام کا سامنا ہے کہ انھوں نے سنہ 2016 کے انتخابات کو متاثر کرنے کی مبینہ غیر قانونی کوشش کی تھی۔کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مخصوص قانون کو توڑے جانے کے متعلق وضاحت کے فقدان کی وجہ سے دفاع کو سزا کو چیلنج کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
کیا ٹرمپ جیل جا سکتے ہیں؟
یہ ممکن ہے، لیکن اس کا بہت زیادہ امکان نہیں ہے کہ مسٹر ٹرمپ قصوروار پائے جانے کی صورت میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے وقت گزاریں گے۔انھیں جن 34 الزامات کا سامنا ہے وہ تمام نیویارک میں ’کلاس ای‘ جرائم کے زمرے میں آتے ہیں اور یہ ریاست نیویارک میں سب سے کم درجے کے جرائم شمار ہوتے ہیں۔ ہر الزام میں زیادہ سے زیادہ چار سال کی سزا ہے۔اس کے ساتھ ہی اس کیس کو سننے والے جج جسٹس مرچن کے پاس کم سے کم سزا کا انتخاب کرنے کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں مسٹر ٹرمپ کی عمر، ٹرمپ کا ماضی میں کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہ ہونا، اور ان کے خلاف دیگر الزامات غیر متشدد قسم کے جرائم میں شامل ہوتے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ جج اس کیس کی بے مثال نوعیت پر بھی غور کریں اور پھر شاید وہ سابق صدر ٹرمپ کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے سے بچنے کا انتخاب کریں۔یہاں یہ سوال بھی ہے کہ کیا ان کا جیل جانا قابل عمل صورتحال بھی ہو گی۔ تمام سابق صدور کی طرح مسٹر ٹرمپ بھی سیکرٹ سروس کی جانب سے تاحیات حفاظت کیے جانے کے حقدار ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جیل میں بھی ان کی حفاظت کے لیے کچھ ایجنٹوں کی ضرورت ہو گی۔ان سب کے باوجود ایک قیدی کے طور پر صدر کے ساتھ جیل کا نظام چلانا انتہائی مشکل ہو گا۔ انھیں محفوظ رکھنا بہت بڑا سکیورٹی رسک اور مہنگا سودا ہو گا۔جیل کی مشاورتی کمپنی وائٹ کالر ایڈوائس کے ڈائریکٹر جسٹن پیپرنی نے کہا: ’جیل کا نظام دو چیزوں یعنی جیل کی حفاظت اور اخراجات کو کم رکھنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ مسٹر ٹرمپ کے معاملے میں ’عجیب و غریب صورتحال درپیش ہو گی۔۔۔ کوئی وارڈن اس کی اجازت نہیں دے گا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا مجرم ثابت ہونے کے بعد بھی وہ صدر کا انتخاب لڑ سکتے ہیں؟
جی بالکل۔ امریکی آئین صدارتی امیدواروں کے لیے نسبتاً اہلیت کے کم تقاضے رکھتا ہے۔ امریکہ کا صدر بننے کی شرائط یہ ہیں کہ امیدوار کی عمر کم از کم 35 سال ہونی چاہیے، وہ ’پیدائشی طور پر‘ امریکہ کا شہری ہو اور کم از کم 14 سال سے امریکہ میں مقیم ہوں۔ مگر مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے امیدواروں کو صدارتی انتخاب میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے کوئی اصول نہیں ہے۔لیکن اس کے باوجود قصوروار پائے جانے کا فیصلہ نومبر 2024 کے صدارتی انتخابات کو متاثر کر سکتا ہے۔ رواں سال کے شروع میں بلومبرگ اور مارننگ کنسلٹ کے ایک سروے سے پتا چلا ہے کہ اہم سوئنگ ریاستوں میں 53 فیصد ووٹروں نے سزا پانے کی صورت میں رپبلکن کو ووٹ دینے سے انکار کیا ہے۔اسی ماہ کوئنیپیاک یونیورسٹی کے ایک دوسرے سروے میں دیکھا گیا ہے کہ اس صورت میں مسٹر ٹرمپ کے ووٹروں میں سے چھ فیصد کا انھیں ووٹ دینے کا امکان کم ہو جائے گا۔ اور اس طرح کے سخت مقابلے میں یہ بہت نتیجہ خیز ہوگا۔
کیا ٹرمپ بطور صدر اپنی سزا معاف کر سکیں گے؟
نہیں۔ امریکی صدور اُن لوگوں کے لیے معافی نامہ جاری کر سکتے ہیں جنھوں نے وفاقی سطح کے جرائم کا ارتکاب کیا ہو۔ نیویارک میں ’ہش منی‘ کیس ایک ریاستی معاملہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسٹر ٹرمپ دوبارہ صدر بنتے ہیں تو اس کیس میں اپنی سزا معافی ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہو گی۔جارجیا میں بھی مسٹر ٹرمپ کے معاملے میں ایسا ہی ہے جہاں ان پر 2020 کے انتخابات کے دوران ریاست میں صدر جو بائیڈن کے ہاتھوں اپنی کم فرق سے شکست کو الٹانے کے لیے مجرمانہ سازش کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ کیس فی الحال اپیلوں میں پھنسا ہوا ہے۔مسٹر ٹرمپ کے دو وفاقی معاملات کے معاملے میں معافی دینے کے اختیارات واضح نہیں ہیں۔ ایک خفیہ دستاویزات کے مبینہ غلط استعمال سے متعلق ہے جبکہ دوسرا 2020 کے انتخابات کو الٹانے کی سازش سے متعلق ہے۔پہلے معاملے میں فلوریڈا میں ٹرمپ کے مقرر کردہ جج نے یہ کہتے ہوئے کہ شواہد کے بارے میں سوالات کو حل کرنے سے پہلے تاریخ طے کرنا ’بیوقوفی‘ ہو گی، مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ہے۔ دوسرا وفاقی کیس بھی تاخیر کا شکار ہے جبکہ مسٹر ٹرمپ کی جانب سے ایک اپیل کی سماعت ہوئی۔مذکورہ دونوں وفاقی مقدمات میں سے کسی کا بھی نومبر کے انتخابات سے پہلے فیصلہ آنے کا امکان نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو بھی تو آئینی ماہرین اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ آیا صدر کی معافی کی طاقت میں وہ خود بھی شامل ہیں یا نہیں۔ ایسے میں مسٹر ٹرمپ خود کو معاف کرنے کی کوشش کرنے والے پہلے شخص ہو سکتے ہیں۔میڈلین ہالپرٹ اور کیئلا ایپسٹین کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.