- مصنف, روپرٹ ونگفیلڈ ہائیز
- عہدہ, بی بی سی، تائپے
- 23 مئ 2024، 16:14 PKTاپ ڈیٹ کی گئی ایک گھنٹہ قبل
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تائیوان کی صدر سائی انگ وین ایک کم گو شخصیت ہیں اور انٹرویو دینا پسند نہیں کرتیں۔صدر سائی انگ کا انٹرویو کرنے کے لیے ہمیں مہینوں کوشش کرنا پڑی، پھر جا کر ہمیں اُن کے گھر پر ان کے ساتھ نشست کرنے کا موقع ملا۔وہ آٹھ برس بعد تائیوان کی صدرات کے منصب سے ہٹ رہی ہیں اور جلد ہی اقتدار ولیم لائی کے حوالے کر دیں گی۔ صدر سائی انگ وین اپنی شخصیت سے زیادہ میرے حوالے سے بات کرنے میں دلچسپی لیتی ہوئی نظر آئیں۔کیمرے کے سامنے سوالات کے جوابات دینے کے بجائے وہ ہمیں اپنے پالتو کتے اور بلیاں دکھانے میں زیادہ خوشی محسوس کر رہی تھیں۔
ان کی ایک بلّی وہیں موجود تھی اور مجھے شک کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ تائیوان کی صدر نے اس بلّی کی طرف اشارہ کر کے کہا: ’یہ زیانگ زیانگ ہیں۔ کیا آپ ان سے ملنا چاہیں گے؟‘جب 2016 میں سائی انگ وین تائیوان کی صدر منتخب ہوئیں تو ان کے مخالفین نے انھیں ایک سُست بیوروکریٹ کہہ کر مخاطب کیا گیا اور ’کیٹ لیڈی‘ کا نام دے کر ان کا مذاق اڑایا گیا کیونکہ وہ ایک ادھیڑ عمر اور غیر شادی شدہ خاتون ہیں۔انھوں نے اس سب کو بھی برداشت کیا اور جلد ہی وہ اپنی بلی ’زیانگ زیانگ‘ کو ہاتھ میں اُٹھائے میگزین کے کورز پر نظر آئیں۔ ان کے حامیوں نے انھیں ایک نیا نام دے دیا: ’تائیوان کی آئرن کیٹ لیڈی۔‘،تصویر کا ذریعہANNABELLE CHIHسائی انگ وین اعتراف کرتی ہیں کہ وہ سابق برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر سے متاثر ہیں لیکن ساتھ ہی وہ کہتی ہیں کہ ایسا اس لیے نہیں کہ وہ ان کی سوشل پالیسیوں کو پسند کرتی ہیں بلکہ وہ مارگریٹ تھیچر کو بطور ایک سخت گیر خاتون رہنما پسند کرتی ہیں۔سائی انگ وین نے بطور صدر آٹھ برس میں چین کے ساتھ تائیوان کے تعلقات کو پُراعتماد طریقے سے نئی راہ پر منتقل کیا۔ چین گذشتہ 75 برس سے دعویٰ کر رہا ہے کہ تائیوان پر اس کا حق ہے۔تائیوان کی صدر سائی انگ وین صدر شی جن پنگ کی سربراہی میں جارحانہ اور آمرانہ مزاج کے ساتھ چین کے سامنے کھڑی رہیں اور امریکی صدور ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے ساتھ تعلقات بھی بہتر کیے۔انھوں نے تائیوان کا دفاع بہتر کیا اور ملک میں ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت دے دی۔ ملک کی سیاست میں انھیں نمایاں رہنا پسند نہیں تھا لیکن ان کی بلی زیانگ زیانگ تائیوان میں ایک سیلیبریٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔سائی انگ وین مقبول تو ہیں لیکن ان کے اردگرد مخالفین بھی موجود ہیں، چین انھیں پسند نہیں کرتا اور ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے خاندان چین میں آباد ہیں اور وہ بیجنگ سے اچھے تعلقات رکھنے کے خواہاں ہیں۔اپنے ملک کے اندر ان پر تنقید ہوتی ہے کہ وہ معیشت کو بہتر نہیں کر سکیں، وہاں مہنگائی بڑھی اور رہائش بھی مہنگی ہو گئی۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے سبب نوجوان ووٹروں نے رواں برس جنوری میں ہونے والے انتخابات میں ان کی جماعت سے دوری اختیار کر لی۔ان کے ناقدین یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی پالیسیوں نے دو کروڑ 30 لاکھ آبادی والے تائیوان کو پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ کر دیا۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ تائیوان کے کسی بھی رہنما کو ان ہی مشکلات سے گزرنا پڑتا۔آپ کے پڑوس میں ایک بڑا، مالدار اور طاقتور ملک ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ آپ کا گھر دراصل اس کی ملکیت ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آپ بغیر مزاحمت کے اپنا گھر اس کے حوالے کر دیں اور انکار کی صورت میں وہ طاقت کا استعمال کرنے کو بھی تیار ہے۔ ایسے میں آپ کیا کریں گے؟،تصویر کا ذریعہANNABELLE CHIH
بیجنگ کو پیچھے دھکیلنے کی پالیسی
صدر سائی انگ وین ایک نوجوان فوجی کے سامنے کھڑی ہیں اور انھیں کہتی ہیں کہ ’واہ، آپ تو بہت طویل قامت ہیں۔‘ نوجوان فوجی نے انھیں بتایا کہ اُس کا قد 185 سینٹی میٹر ہے۔تائیوان کی صدر نے انتہائی فکرمندی سے ایک بار پھر پوچھا: ’کیا یہاں پر جو بیڈ ہیں وہ آپ کے لیے کافی ہیں؟‘ نوجوان فوجی نے اس بات کا جواب اثبات میں دیا۔یہ گفتگو اپریل کی ایک صبح تائی پے کے نواح میں واقع سپیشل فورسز کی تربیت گاہ میں ہوئی تھی، جس کا سنگِ بنیاد حال ہی میں رکھا گیا تھا۔جیسے ہی وہ اس تربیت گاہ کے ڈائننگ روم میں داخل ہوئیں تو ایسا لگا جیسے وہ باتونی صدر کہیں غائب ہو گئی ہیں جو کچھ دیر پہلے فوجیوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔ وہاں موجود سینکڑوں افراد نے ان کے حق میں نعرے بھی لگائے۔وہاں ان کی طرف سے کی جانے والی تقریر انتہائی نپی تُلی تھی اور اس میں قیاس آرائی کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود بھی وہ اکثر فوجی مقامات کا دورہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں تاکہ حکومت کی طرف سے متعارف کروائی گئی اصلاحات پر عملدرآمد کروا سکیں۔ان کی حکومت نے 18 سال سے بڑی عمر کے تمام مردوں کے لیے ایک سال کی فوجی تربیت لازمی قرار دی تھی اور یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔وہ اعتراف کرتی ہیں کہ ان کا فیصلہ مقبول نہیں لیکن عوام سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا ضروری ہے۔،تصویر کا ذریعہOFFICE OF THE PRESIDENT, ROC (TAIWAN)
سافٹ پاور کا استعمال
چین کو ایک بڑا اور کمزوروں کو دبانے والا ملک بنا کر پیش کرنا تائیوان کی صدر کے لیے مشکل نہیں تھا۔ ان کے لیے کٹھن مرحلہ ایسے اتحادی ڈھونڈنا تھا جو چین جیسی دنیا کی دوسری سب سے بڑی اقتصادی طاقت کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت رکھتے ہوں۔شاید یہی وجہ ہے کہ تائیوان سفارتی طور پر ایک طرح کی تنہائی کا شکار ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں چین تائیوان کے متعدد اتحادیوں کو دبانے میں کامیاب ہوا۔ اب ایسے صرف 12 ممالک باقی رہ گئے ہیں جو تائیوان کو ایک ریاست تسلیم کرتے ہیں۔سائی کہتی ہیں کہ سفارتی تنہائی سے باہر نکلنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور یہ کہ ’ہم دماغ جمہوری‘ طاقتوں کے ساتھ اتحاد بنایا جائے۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ متعدد ممالک سے آنے والے پارلیمانی وفود سے ملاقاتیں کرتی ہیں اور ان کا تعلق ان ممالک سے ہوتا ہے جو تائیوان کو ایک علیحدہ ریاست تسلیم نہیں کرتے۔گذشتہ ہفتے جب چینی صدر شی جن پنگ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے استقبال کی تیاریاں کر رہے تھے تو تائیوان کی صدر نمفیا وارڈ نامی سٹیج آرٹسٹ کی پرفارمنس کا انعقاد کروا رہی تھیں۔نمفیا نے سائی کو بتایا کہ ’یہ دنیا کا واحد صدارتی محل ہے جہاں میرے شو کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔‘یہ ایک ایسی مثال ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ تائیوان ایک ایسا جمہوری ملک ہے جس کے بارے میں پوری دنیا کو فکر ہونی چاہیے۔سائی انگ وین کہتی ہیں کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ ہم یوکرین سے زیادہ اہم ہیں، تعزویراتی طور پر ہماری پوزیشن بہت اہم ہے اور یہ کہ انھیں تائیوان کی مزید حمایت کرنی چاہیے لیکن ہم کہتے ہیں ایسا نہ کریں۔ جمہوری ممالک کو یوکرین کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنی چاہیے۔‘سائی کے پاس اب بھی وہ طاقت ہے جو چین کے پاس نہیں: جمہوریت کی سافٹ پاور۔جنوری میں انتخابات سے قبل ڈی پی پی کے ہر جلسے میں رینبو والے پرچم نظر آتے تھے۔ایک جلسے میں موجود ایک جوڑے نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تائیوان میں ہم اپنی زندگیاں اپنی مرضی سے گزارنے کے لیے آزاد ہیں۔ یہ سب ہم چین میں نہیں کر سکتے۔‘یہ ایک ایسی تبدیلی تھی جو 30 سال قبل ناپید تھی اور میں اس وقت سٹوڈنٹ تھا۔ اس وقت تائیوان چار دہائیوں پر محیط فوجی اقتدار سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ میرا ایک ہم جنس پرست دوست انتہائی بے چینی سے امریکہ منتقل ہونے کی راہیں تلاش کر رہا تھا۔ اس زمانے میں اگر فوج کی نوکری کے دوران یہ ثابت ہوجاتا کہ آپ ہم جنس پرست ہیں تو آپ کو جیل یا نفسیاتی ہسپتال بھیج دیا جاتا تھا۔تائیوان اب تبدیل ہو گیا تھا لیکن صدر سائی کی حکومت نے اس وقت تبدیلی کی طرف مزید ایک قدم آگے بڑھایا اور سنہ 2019 میں ملک میں قانونی طور پر ہم جنس پرست شادیوں کی اجازت دے دی۔ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی اب بھی اس قانون کے خلاف ہے اور مذہبی برادری نے بھِی اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی۔ ایک بڑا سیاسی رسک تھا، وہ بھی ایسا جس کے سبب صدر سائی کی جماعت انتخابات ہار سکتی تھی۔سائی کہتی ہیں کہ وہ میرے لیے ایک ’مشکل سفر‘ تھا لیکن وہ ضروری بھی تھا۔ ’یہ ایک ٹیسٹ تھا یہ دیکھنے کے لیے کہ ہمارا معاشرہ اپنی اقدار کو لے کر کتنا لچک دار ہے۔ مجھے فخر ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھنے میں کامیاب ہوئے۔‘میں نے صدر سائی سے پوچھا کہ کیا انھیں ڈر ہے کہ تائیوان ایک بار پھر ’بوائز کلب‘ میں تبدیل ہوجائے گا؟ انھوں نے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی لیکن یہ ضرور کہا کہ ’اس بوائز کلب سے میری اپنی رائے ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ تائیوان کی اصل طاقت اس کی اقدار اور پناہ گزین ہیں۔ چینی افراد صدیوں سے اس جزیرے پر آ رہے ہیں اور وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔صدر سائی کے مطابق ’ایسے معاشروں کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں، لوگ کلچر کے ذریعے نہیں جُڑے ہوئے بلکہ ان کا واحد مقصد صرف بطور معاشرہ اپنی بقا ہے، یہ وجہ ہے کہ ہم آمرانہ طرز حکومت سے نکل کر جمہوریت کی طرف آئے۔‘اسی لیے صدر سائی سمجھتی ہیں کہ ان کا سب سے اہم اتحادی اور دنیا کا سب سے طاقتور ملک امریکہ تائیوان کے ساتھ کھڑا رہے گا اور نومبر میں ہونے والے انتخابات کا اثر ان تعلقات پر نہیں پڑے گا۔
امریکہ اور تائیوان کی دوستی؟
لیکن سچ تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ تائیوان کے لیے ایک ’وائلڈ کارڈ‘ ثابت ہوں گے لیکن صدر سائی کہتی ہیں کہ بطور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تائیوان کو اسلحہ مہیا کرنے کی منظوری بھی دی تھی۔لیکن وہ ٹرمپ یا ان کی وائٹ ہاوس میں واپسی کے حوالے سے گفتگو نہیں کرنا چاہتیں۔ ان کی تمام تر توجہ چین سے اُٹھنے والے خطرات پر مرکوز ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.