دنیا بھر کے سائنسداں جینیاتی بلیو پرنٹس کو ڈیجیٹائز کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے اس اقدام کا آغاز اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ انتباہ کے بعد کیا۔
اقوام متحدہ کے انتباہ کے مطابق آنے والی دہائیوں میں تقریباً 10 لاکھ پودوں اور جانوروں کی نسلوں کو معدوم ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق محقق جوانا ہارلی (Joanna Harley) کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت ضروری ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کُرۂ ارض پر موجود تمام انواع کو محفوظ کرنا بہت اہم ہے۔ اس مقصد کے لیے دنیا بھر کے تقریباً 5 ہزار سائنسداں اس ’ارتھ بائیو جینوم‘ (Earth BioGenome) پروجیکٹ میں حصّہ لیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ اگلی دہائی تک سائنسداں کرۂ ارض پر موجود 1.8 ملین معلوم پودوں، جانوروں، فنگس، حشرات الارض ، واحد خلیے والی حیاتیات وغیرہ کے ڈی این اے کو ڈیجیٹائز کرلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 2022 کے اختتام تک تقریباً 3 ہزار مختلف انواع کو محفوظ کرلیا جائے گا ۔
سائنسدانوں کا ڈی این اے کو محفوظ کرنے کا مقصد زمین پر زندگی کو بہتر اور محفوظ بنانا، حیاتیاتی تنوع کی حفاظت اور اس کے ماحول کو بہتر طریقے سے سمجھنا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر ہر ایک شے ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہے۔ ہمیں ان پودوں، جانوروں اور فنگس کی ضرورت ہے اگر ہم یہ سمجھ جائیں کہ یہ کس طرح کام کرتے ہیں تو ہم انسانوں کی بھی خدمت کرسکیں گے۔
برطانوی محققین نے اب تک ملک میں موجود 70 ہزار معلوم انواع میں سے تقریباً 400 کے جینیاتی بلیو پرنٹس کو محفوظ کرلیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک طویل عمل ہے جو انواع کی تلاش و دریافت سے شروع ہوتا ہے پھر انہیں الگ الگ کرکے لیبارٹریوں کو بھیجا جاتا ہے جو انہیں ترتیب دے کر ڈیٹا آن لائن شیئر کرتیں ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ڈیٹا سے ہم تعین کرسکیں گے کہ آیا کوئی انواع خطرے میں ہے یا نہیں، اس سے ہمیں اپنے اگلے لائحے عمل کوتریب دینے میں مدد ملے گی۔
سائنسدانوں نے مزید کہا کہ ڈی این اے کو ڈی کوڈ کرنے سے نہ صرف خطرے سے دو چار پودوں اور جانوروں کو بچایا جا سکے گا بلکہ کئی انواع جو معدوم ہونے کے دہانے پر ہیں ان کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔
Comments are closed.