آسٹریلیا کے سمندر میں 200 مربع کلومیٹر پر پھیلا دنیا کا سب سے بڑا زیرِ آب پودا دریافت
- ٹفنی ٹرنبل
- بی بی سی نیوز، سڈنی
سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ آسٹریلیا کے ساحل سے کچھ ہی دور پانی کے نیچے واقع ایک بہت بڑا باغیچہ درحقیقت ایک ہی پودا ہے جو سینکڑوں کلومیٹر پر محیط ہے۔
سائنسدان جینیاتی ٹیسٹنگ کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مختلف پودوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک ہی پودا ہے۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ کم از کم ساڑھے چار ہزار برس قبل ایک ہی بیج سے پھیلا تھا۔
یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے سائنسدانوں کے مطابق یہ سمندری گھاس تقریباً دو سو مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔
ٹیم نے یہ دریافت حادثاتی طور پر کی۔ درحقیقت وہ پرتھ کے شمال میں 800 کلومیٹر دور ’شارک بے‘ میں واقع اس پودے کی جینیاتی ٹیسٹنگ کرنا چاہتے تھے۔
اس سمندری گھاس کو ربن ویڈ بھی کہا جاتا ہے اور یہ آسٹریلیا کے ساحلوں میں عام پایا جاتا ہے۔
محققین نے اس کھاڑی سے متعدد ٹہنیاں اکٹھی کیں اور 18 ہزار جینیاتی نشانات کا تجزیہ کر کے ہر نمونے کا ایک ’فنگر پرنٹ‘ تیار کیا۔
وہ یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ اس باغیچے میں کتنے پودے ہیں۔
شارک بے میں واقع پودے کا طائرانہ منظر
اس مطالعے کی سرکردہ مصنف جین ایجلو نے کہا: ’جواب نے ہمیں حیران کر دیا، یہاں صرف ایک ہی پودا تھا۔‘
’شارک بے میں صرف ایک ہی پودا 180 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے، چنانچہ یہ زمین پر موجود سب سے بڑا پودا بن گیا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
یہ پودا حیران کُن حد تک سخت جان بھی ہے اور پوری کھاڑی میں کئی مقامات پر ایک دوسرے سے انتہائی مختلف حالات میں بھی پھل پھول رہا ہے۔
محققین میں سے ایک ڈاکٹر الزبتھ سینکلیئر نے کہا: ’یہ بظاہر انتہائی لچکدار پودا ہے جو کئی طرح کے درجہ حرارت اور نمکیاتی سطحیں، اور ساتھ ساتھ انتہائی تیز روشنی کو جھیل رہا ہے، یہ تمام حالات مجموعی طور پر زیادہ تر پودوں کے لیے بے حد تناؤ انگیز ہو سکتے ہیں۔‘
یہ پودا کسی باغیچے کی طرح سال میں 35 سینٹی میٹر تک بڑھتا ہے اور سائنسدانوں نے اسی بنا پر یہ اندازہ لگایا ہے کہ اسے اپنے موجود حجم تک پہنچنے میں ساڑھے چار ہزار برس لگے ہیں۔
یہ مطالعہ تحقیقی جریدے پروسیڈنگز آف دی رائل سوسائٹی بی میں شائع ہوئی ہے۔
Comments are closed.