- مصنف, انجیلا فرگوسن، لیزلی ہچن، کالم مے
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
برطانیہ کے شہر ساؤتھ پورٹ میں تین بچیوں کے قتل کے بعد ایک مسجد کے باہر ہونے والی ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں کم از کم 50 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ سوموار کے دن ایک مقامی ڈانس سکول میں بچوں کی ڈانس پرفارمنس کے دوران چھری سے لیس ایک شخص نے اچانک نمودار ہو کر حملہ کر دیا تھا اور تین بچیاں ہلاک ہو گئی تھیں۔مقامی پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا تھا لیکن اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی تھی تاہم سوشل میڈیا پر افواہوں میں اس واردات کو مذہبی رنگ دیا گیا۔ پولیس نے واضح کیا کہ حملے سے متعلق غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں تاہم یہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں اور ملزم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اس وضاحت کے باوجود منگل کے دن ساؤتھ پورٹ میں بڑی تعداد میں مظاہرین ایک مقامی مسجد کے قریب جمع ہوئے جہاں ہنگامہ آرائی کا آغاز مسجد پر اینٹیں، بوتلیں اور پتھر برسانے سے شروع ہوا۔موقع پر موجود پولیس، جو ایک پرامن احتجاج کی اطلاع کی وجہ سے پہلے سے تعینات تھی، پر بھی مظاہرین نے مختلف اشیا پھینکیں اور پولیس کی ایک گاڑی کو نذرآتش کر دیا گیا۔پولیس کے مطابق کم از کم آٹھ اہلکاروں کو شدید چوٹیں آئی ہیں جن میں سے چند کی ہڈیاں تک ٹوٹ گئیں۔ پولیس کے مطابق بد امنی پھیلانے والے مظاہرین کا تعلق انگلش ڈیفنس لیگ (ای ڈی ایل) سے ہے جو خود کو اسلام مخالف تنظیم کہتی ہے۔مقامی میئر پیٹرک ہرلے نے اس واقعے کے بعد بی بی سی ریڈیو فور سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہنگامہ آرائی کے ذمہ دار افراد باہر سے آئے تھے جنھوں نے تین بچوں کی موت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔‘واضح رہے کہ ڈانس کلب پر حملے کے الزام میں ایک 17سالہ لڑکے کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد پولیس کے اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل ایلکس گوس نے کہا تھا کہ ’پولیس کی زیرحراست نوجوان کے بارے میں بہت زیادہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں اور کچھ لوگ اس واقعے کو غلط رنگ دے کر سڑکوں اور گلیوں میں تشدد اور انتشار پھیلا رہے ہیں۔‘’ہم نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ یہ شخص برطانیہ میں پیدا ہوا تھا۔ ملزم کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے سے کسی کی مدد نہیں ہوگی۔‘،تصویر کا ذریعہPA/Merseyside Police
ساؤتھ پورٹ حملے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
ساؤتھ پورٹ میں ہونے والے حملے میں چھ سالہ بیبی کنگ، سات سالہ ایلسی ڈوٹ اور نو سالہ ایلس ڈاسلوا ہلاک ہو گئی تھیں۔اس واقعے میں آٹھ بچے زخمی بھی ہوئے تھے جن میں سے پانچ کی حالت نازک بتائی گئی جبکہ پولیس کے مطابق حملے میں دو بالغ افراد کو بھی شدید زخم آئے تھے۔پولیس نے اس واقعے کی تفصیلات کے بارے میں بتایا ہے کہ ڈانس سکول میں بچوں کی تقریب جاری تھی جس کے دوران ایک شخص چھری کے ساتھ عمارت میں گھسا اور اندر موجود لوگوں پر حملہ کر دیا۔ان کے مطابق بچوں کو بچانے کے لیے دو بالغ افراد نے ’بہادری‘ کا مظاہرہ کیا جنھیں شدید چوٹیں آئی ہیں۔چھ سالہ بیبی کنگ اور سات سالہ ایلسی ڈوٹ سوموار کے دن ہی ہلاک ہو گئی تھیں جبکہ نو سالہ ایلس ڈاسلوا کی موت اگلے دن ہسپتال میں واقع ہوئی۔
’وہ بچوں کو مار رہا ہے‘
سکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کے عینی شاہد جویل وریٹ نے بتایا کہ وہ ڈانس سٹوڈیو کے قریب سے گزر رہے تھے جب انھوں نے ایک خاتون کو یہ چلاتے ہوئے سنا کہ وہ بچوں کو مار رہا ہے۔ان کے مطابق انھوں نے ایک گاڑی میں ایک خاتون کو بھی دیکھا جن کے ساتھ خون میں لت پت چار سے پانچ بچے موجود تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کسی فلم جیسا منظر تھا۔ میں بتا نہیں سکتا کہ یہ کتنا ہولناک تھا۔‘انھوں نے زخمیوں کی مدد کے لیے گاڑی روکی اور نیچے اتر کر عمارت کی جانب رخ کیا تو اسی وقت انھوں نے مبینہ حملہ آور کو بھی دیکھا جو عمارت کے اندر ہاتھ میں چھری لیے کھڑا ہوا تھا تاہم مبینہ حملہ آور دیکھتے ہی دیکھتے فرار ہو گیا۔انھوں نے بتایا کہ حملہ آور کو بعد میں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔،تصویر کا ذریعہPA Media
بچوں کو قتل کرنے والا مبینہ حملہ آور کون ہے؟
پولیس نے واقعہ کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ انھوں نے ایک شخص کو حراست میں لیا اور ایک چھری بھی قبضے میں لی۔پولیس نے بعد میں ایک بیان جاری کیا اور بتایا کہ ملزم ایک 17 سالہ نوجوان ہے جس کو ساؤتھ پورٹ کے شمال میں لنکاشائر کے ایک گاوں بینکس سے گرفتار کیا گیا۔پولیس ملزم سے اس حملے کے بارے میں تفتیش کر رہی ہے۔ ایک عینی شاید نے بتایا ہے کہ اس نے ملزم کو ایک ٹیکسی سے اترتے ہوئے دیکھا تھا اور اس نے اپنے چہرے پر ماسک پہن رکھا تھا اور ٹیکسی کو پیسے دینے سے انکار کر دیا تھا۔بی بی سی کی معلومات کے مطابق یہ نوجوان 2013 میں ساؤتھ پورٹ منتقل ہوا تھا اور اس کے والدین کا تعلق روانڈا سے ہے جو پہلے کارڈف میں رہتے تھے۔ملزم کے اہلخانہ کی ایک سابقہ پڑوسی نے بی بی سی سے بات کی اور بتایا کہ ’وہ جوڑا کافی اچھا تھا، ماں گھر پر ہی رہتی تھی اور باپ بھی اچھا انسان تھا جو ہر روز کام پر جاتا تھا۔ ان کے پاس ایک چھوٹی سی گاڑی تھی۔‘دوسری جانب کاوئنٹر ٹیررازم پولیس نارتھ ویسٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ’سوشل میڈیا پر اس واقعے کے بعد ملزم کا جو نام بتایا جا رہا ہے وہ غلط ہے اور تفتیش کے دوران بہتر ہو گا کہ لوگ قیاس آرائیاں نہ کریں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.