- مصنف, وقار مصطفیٰ
- عہدہ, صحافی و محقق
- ایک گھنٹہ قبل
سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر شمالی افریقہ کے ایک سکول کی تصویر پر عربی زبان میں لکھے الفاظ نے مجھے رکنے پر مجبور کر دیا۔ اس زبان سے شُد بُد کے باعث پتا چلا کہ ان الفاظ میں لکھا تھا: ’زینب النفزاویہ سیکنڈری سکول فار گرلز۔‘ ساتھ ہی لگے ایک بورڈ کی تصویر سے علم ہوا کہ 1009 سے 1106 تک جینے والی یہ ملکہ، یوسف بن تاشفین کی بیوی تھیں اور فلسفی اور مورخ ابن ِخلدون کے مطابق ’اپنی خوبصورتی اور قیادت کے لیے دنیا بھر میں مشہور خواتین میں سے ایک تھیں۔‘یوسف بن تاشفین کے بارے میں پڑھ رکھا تھا کہ نیلے رنگ کا روایتی مُنڈاسا باندھے، بربر نسل کے ان سادہ مَنَش صحرائی اور بہترین جرنیل کی سلطنت افریقہ کے ایک چھوٹے، غیر محفوظ علاقے سے ایسی ابھری کہ موجودہ مراکش، الجزائر اور سپین کے علاقے اس کا حصہ بنے۔ اب ابن ِخلدون نے زینب کا ذکر’قیادت‘کے حوالے سے کیا تو ان کے بارے میں تجسس ہوا۔
آپ کے پاس وقت ہو تو اسلامی تاریخ کی مشہور خاتون لیڈر زینب النفزاویہ کی زندگی جاننے کے سفر میں میرے ساتھ چلیں جنھیں مراکشی لکھاری فاطمہ مرنیسی نے اپنی کتاب ’اسلام کی بُھولی بِسری ملکائیں‘ میں اہم مقام دیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’زینب النفزاویہ 1061 اور 1107 کے درمیان شمالی افریقہ سے سپین تک پھیلی ہوئی ایک بہت بڑی سلطنت کے حکمران، اپنے شوہر یوسف بن تاشفین کے ساتھ اقتدار میں شریک تھیں۔‘مورخین زینب کو ’القائمة بملكهِ‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں یعنی، اپنے شوہر کے مُلک کی حاکم یا اسے چلانے والی مرکزی کردار۔‘زینب جنوبی افریقی قبیلے نفزاوا کے ایک امیر تاجر کی بیٹی تھیں۔ اغمت میں پیدا ہوئیں، یہیں لکھنا پڑھنا سیکھا، پرورش ایک ایسی خاتون نے کی جو غلام بنائے جانے سے پہلے ایک افریقی شاہی خاندان سے تھیں۔ ان ہی نے زنیب کو طبی جڑی بوٹیوں کا علم بھی سکھایا۔ابنِ خلدون کے مطابق انھوں نے اغمت کے امیر لقوط المغراوی سے شادی کی۔ لقوط الموراوی حملہ آوروں کے خلاف جنگ میں مارے گئے اور ان کی دولت زینب کو وراثت میں ملی۔انھوں نے دوسری شادی الموراوی امیر ابوبکر ابن عمر سے کی۔ ابوبکر ایک قبائلی بغاوت کو ختم کرنے صحرا میں جنوب کی طرف گئے تو جانے سے پہلے مغرب میں اپنی فوجوں کی کمان اپنے چچا زاد بھائی یوسف بن تاشفین کو دے دی اور مہم لمبی ہونے کے خدشے کے تحت زینب کو طلاق دے گئے۔زینب نے عدت پوری ہونے کے بعد یوسف سے شادی کر لی۔ زینب نہ صرف یوسف کی شریک حیات بنیں بلکہ بصیرت مند مشیر بھی۔ ،تصویر کا ذریعہ@eric_calderwood/Xبحر اوقیانوس سے لے کر الجزائر اور سینیگال سے آگے مسلم سپین تک پھیلی اس وسیع الموراوی سلطنت کی بنیاد جہاں یوسف کی فوجی ذہانت سے منسوب کی جا سکتی ہے، وہاں اس کا سہرا زینب کی صلاح اور سیاسی اختیار کو بھی جاتا ہے۔ ابنِ عِذاری، البکری اور ابن خلدون سمیت زیادہ تر مؤرخین کے مطابق، زینب بہت خوبصورت، توانائی سے بھرپور، غیر معمولی ذہانت اور پالیسی کے معاملات کا وسیع علم رکھتی تھیں، وہ انھیں ’جادوگر‘ کہتے تھے۔
یوسف بن تاشفین کے لیے فوج کی تیاری میں مدد
مورخ ابن حوقل زینب کو مغرب میں گیارہویں صدی کی عظیم شخصیات میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ سیاسی امور کے وسیع علم کی وجہ سے انھوں نے قرون وسطیٰ کے مغرب کی تاریخ میں ایک بڑا کردار ادا کیا۔مغرب (جسے عرب مغرب اور شمال مغربی افریقہ بھی کہا جاتا ہے) عرب دنیا کا مغربی حصہ ہے۔ یہ خطہ مغربی اور وسطی شمالی افریقہ پر مشتمل ہے جس میں الجزائر، لیبیا، موریطانیہ، مراکش اور تیونس اور مغربی صحارا کا متنازعہ علاقہ بھی شامل ہے۔یوسف کے پاس فتوحات جاری رکھنے کے لیے مضبوط فوج نہیں تھی۔ رچرڈ سی پینل کے مطابق زینب نے فوج کی تنظیم ِنو کے لیے اپنی پوری دولت یوسف کو دے دی اور انھیں مختلف علاقوں سے خراج لینے کا مشورہ دیا۔ اس سے انھوں نے مختلف مغربی نسلی گروہوں سے فوج جمع کی۔ابن ابی ذر اپنی کتاب ’روض القرطاس‘ میں لکھتے ہیں کہ ’زنیب کی ہدایت پر یوسف نے مغرب کو فتح کیا اور مذاکرات زینب نے انجام دیے۔ یہ مذاکرات میں ان کی مہارت تھی جس پر انھیں ’جادوگر‘ کا لقب دیا گیا۔‘یوسف نے شہر مراکش بنایا جو ابھرتی ہوئی طاقت کا دارالحکومت بن گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ زینب ہی نے اس مقام کے انتخاب کی تجویز دی تھی۔یہ نیا دارالحکومت اس جگہ سے زیادہ دور نہیں تھا جہاں وہ رہ رہی تھیں۔ بعض روایتوں میں کہا گیا ہے کہ قصر الحجر یا پتھر کا قلعہ ان کے لیے بنایا گیا تھا، اور یہ کہ یوسف نے خود اپنے ہاتھوں سے اس کی تعمیر میں مدد کی تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ابوبکر ابن عمر کی واپسی اور زنیب کا مشورہ
ابوبکر ابن عمر نے اپنے چچا زاد یوسف کو اپنی واپسی کے بارے میں بتایا یقینی طور پر اپنی طاقت اور اپنی بیوی کو دوبارہ حاصل کرنے کی امید میں۔ ابو الحسن ابن ابو زہر الفاسی لکھتے ہیں کہ زینب نے مداخلت کرتے ہوئے یوسف کو مشورہ دیا کہ وہ گھانا کے سیاہ فام محافظوں کے ساتھ ابوبکر کا سرد مہری سے استقبال کریں۔ یوسف نے استقبال گھوڑے کی پیٹھ پر ایک بادشاہ کی طرح کیا لیکن ساتھ ہی بہت سے تحفے بھی پیش کیے۔اتنے مال و دولت سے حیران ہو کر ابوبکر نے یوسف کی سخاوت کی وجہ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا کہ ’یہ صرف اتنا ہے کہ آپ کو صحرا میں کوئی بھی چیز یاد نہ آئے جہاں نئے کارنامے آپ کے منتظر ہیں۔‘ابوبکر نے اس پیغام کا مطلب سمجھ لیا اور جانا کہ تحائف کو قبول کرنا زیادہ سمجھ داری کی بات ہو گی اور اغمت میں مختصر قیام کے بعد اقتدار کی منتقلی کی دستاویز لکھی اور خود صحرا کی جانب چلے گئے جہاں انھوں نے گھانا اور سوڈان کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ یہاں تک کہ وہ 1087 میں مرنے تک الموراوی کے رسمی سربراہ رہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
زنیب کا خواتین کو مقام دلانے میں کردار
یوسف بن تاشفین مغرب کے غیر متنازع حکمران اور وسیع سلطنت کے مالک بن گئے۔ چارلس نوئل کے مطابق، زینب کے مضبوط اثر و رسوخ کے کئی عوامل ہو سکتے ہیں۔’پہلا یہ کہ زینب تعلیم یافتہ تھیں اور یوسف کے عربی کے محدود علم نے انھیں فائدہ پہنچایا۔دوسرا، زینب کو سیاسی اثر و رسوخ اپنے کردار کی مضبوطی اور فیصلہ ساز کے طور پر اپنے شوہرکے ان پر اعتماد سے ملا۔ایک تیسرا عنصر فوجی مہم ہو سکتی ہے جس کے باعث یوسف کی عدم موجودگی میں انھیں کام کرنے کا موقع ملا۔‘زینب نے خاندان اور اس کے رسوم و رواج کو بنانے میں مدد کی جس سے الموراوی مراکش میں خواتین کی صورت حال پر بہت اثر پڑا۔ انھی کی روایت اور مثال میں، مراکش میں خواتین کو الموراوی خاندان کے دور میں اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ شہزادیوں کو ریاستی امور میں حصہ لینے کی اجازت تھی، خواتین کی تعلیم کو قبول اور عام کیا گیا۔ایلیسن بیکرکے مطابق کم از کم دو خواتین کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ ڈاکٹر تھیں۔ اسی طرح شہزادی فنو نے 1147 میں خاندان کے زوال کے دوران میں دارالحکومت کے دفاع میں حصہ لیا تھا۔حالیہ دہائیوں میں، زینب النفزاویہ کی زندگی ٹی وی اور فلم کا موضوع بنی ہے لیکن ان کی روایت کی پائیداری ان سکولوں سے جھلکتی ہے جہاں بچیاں تعلیم پارہی ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.