بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

زیلنسکی: ’کسی بھی امن معاہدے کے لیے روسی افواج حملے سے پہلے کی پوزیشن پر واپس جائیں‘

یوکرین روس تنازع: کسی بھی امن معاہدے کے لیے روسی افواج حملے سے پہلے کی پوزیشن پر واپس جائیں، صدر زیلنسکی

ماریوپول

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

ماریوپول سے تقریبا 50 افراد کو باہر نکالا گیا ہے

یوکرین کے صدر کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ کسی بھی امن معاہدے کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ روسی افواج یوکرین پر حملے سے پہلے کی پوزیشنوں پر واپس چلی جائیں۔

لندن کے ایک تھنک ٹینک سے بات کرتے ہوئے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کا ملک کم از کم اس شرط کو قبول کر سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ ‘یوکرین کے رہنما ہیں منی یوکرین کے نہیں’ لیکن انھوں نے کریمیا کا ذکر نہیں کیا، جسے روس نے سنہ 2014 میں اپنے ساتھ ضم کر لیا تھا۔

روس اس وقت ماریوپول شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے برسر پیکار ہے۔ جنوب مشرقی شہر کے وسیع ایزوستال سٹیل ورکس میں اب بھی یوکرین کی افواج کچھ شہریوں کے ساتھ موجود ہیں۔ یہ علاقہ روس کے شدید حملے کی زد میں ہیں۔

ماریوپول پر مکمل قبضہ، دو ماہ سے جاری جنگ میں روس کی سب سے بڑی کامیابی تصور ہو گی اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے لیے نو مئی کا جشن منانے کا ایک موقع ہو گا۔

واضح رہے کہ نو مئی روس میں فتح کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے کیونکہ یہ دن دوسری جنگ عظیم میں نازیوں پر سوویت یونین کی فتح کی یادگار ہے۔

تاہم کیئو سے لندن میں چیٹھم ہاؤس کے تھنک ٹینک سے بات کرتے ہوئے زیلنسکی نے کہا کہ روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد سے فتح کیے گئے علاقے پر قبضہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

انھوں نے بی بی سی کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ‘روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کو روکنے کے لیے 23 فروری کی صورت حال کو دوبارہ بحال کرنا چاہیے۔‘ ان کا اشارہ جنگ سے پہلے کی پوزیشن کی جانب تھا۔

یوکرین جنگ

انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے یوکرین کے عوام نے یوکرین کے صدر کے طور پر منتخب کیا ہے، نہ کہ کسی منی (چھوٹے) یوکرین کے صدر کے طور پر۔ اور یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے۔‘

23 فروری کی صورت حال کی بحالی کے مطالبے سے یہ پتا چلتا ہے کہ یوکرین روس کے ساتھ امن قائم کرنے سے پہلے کریمیا کو دوبارہ حاصل کرنے پر اصرار نہیں کر رہا ہے۔

خیال رہے کہ اس جزیرہ نما کو آٹھ سال قبل روس نے اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔

صدر زیلنسکی نے روس اور یوکرین کے درمیان سفارتی بات چیت کی بحالی پر زور دیا۔ انھوں نے کہا: ‘اس حقیقت کے باوجود کہ انھوں نے ہمارے تمام پل تباہ کر دیے ہیں۔ یوکرین کے تمام پل ابھی تک تباہ نہیں ہوئے۔‘ شائد صدر زیلینسکی نے ایسا علامتی طور پر کہا۔

روس نے اپنی طرف سے اس صورت حال کو ‘جمود کی حالت’ میں قرار دیا ہے۔

ماریوپول سے انخلا جاری

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

روس اور یوکرین نے کہا کہ اقوام متحدہ اور ریڈ کراس کے تعاون سے ایک آپریشن میں جمعہ کو 11 بچوں سمیت مزید 50 شہریوں کو ماریوپول میں ازوستال سٹیل ورکس سے نکالا گیا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ مزید لوگ اب بھی وسیع فیکٹری کے نیچے سوویت دور کی سرنگوں اور بنکروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

یوکرین کی نائب وزیر اعظم ایرینا ویریشچک نے کہا ہے کہ جنگ کی وجہ سے آپریشن کی رفتار کم ہے اورانھوں نے اسے ‘اشتعال انگیزی’ سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انخلا سنیچر کو دوبارہ شروع ہو جائے گا۔

روس نے اس سے قبل کہا تھا کہ تین دن کے لیے جنگ بندی رہے گی اور اس کی ابتدا جمعرات کے دن سے بتائی گئی تھی۔

روسی حملہ

،تصویر کا ذریعہReuters

دریں اثنا زیلنسکی نے کہا کہ وہ جرمن چانسلر اولاف شولز کو نو مئی کو یوکرین کے دورے کی دعوت دے رہے ہیں۔ جس دن روس دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین کی قربانیوں کی یاد منائے گا اس دن جرمن رہنما کی یوکرین میں موجودگی انتہائی اہم تصور ہو گی۔

زیلنسکی نے کہا کہ ‘وہ نو مئی کو یہاں آکر انتہائی طاقتور اور دانشمندانہ سیاسی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ (یہاں) میں اس اہمیت کی وضاحت نہیں کر رہا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ آپ اس کی وجہ سمجھ سکتے ہیں۔’

خیال رہے کہ یوکرین کے صدر اس سے قبل جنگ کے دوران جرمنی کے موقف پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

اپریل میں بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے جرمنی پر روسی توانائی کی فروخت پر پابندی لگانے کی کوششوں کو روکنے کا الزام لگایا اور کہا کہ یورپی ممالک جو روسی تیل خرید رہے ہیں وہ ‘اپنا پیسہ دوسرے لوگوں کے خون کے عوض کما رہے ہیں۔’

اسی ماہ جرمنی کے صدر فرینک والٹر شٹائن مائر کا کیئو کا طے شدہ دورہ روس کے ساتھ جرمنی کے اقتصادی تعلقات کی وجہ سے آخری لمحات میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔

بائیڈن کا فوجی امداد میں اضافہ

اس کے علاوہ جمعہ کو امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کو اپنے ملک کے دفاع کے لیے 15 کروڑ ڈالر کی نئی فوجی امداد کا اعلان کیا۔

ایک سینیئر امریکی اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ امداد میں توپ خانے کے لیے گولہ بارود، دشمن کی جانب سے فائرنگ کے مقام کا پتہ لگانے اور انھیں تباہ کرنے کے لیے ریڈار، الیکٹرانک جیمنگ کے ساز و سامان اور سپیئر پارٹس شامل ہیں۔

لیکن صدر بائیڈن نے متنبہ کیا کہ موجودہ فنڈنگ ختم ہونے کے قریب ہے اور کانگریس پر زور دیا کہ وہ انھیں مزید امداد کی اجازت دے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ وہ یوکرین کو انٹیلی جنس بھی فراہم کر رہا ہے جبکہ امریکی میڈیا رپورٹس میں حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس نے یوکرین کو روس کے فلیگ شپ میزائل کروزر ماسکوا کو ڈبونے میں مدد کی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.