زیر زمین جوہری شہر اور یورینیئم کی کانیں: ایران کی ایٹمی صلاحیت اور تنصیبات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں
ایرانی ایٹمی توانائی تنظیم نے گذشتہ دنوں اعلان کیا کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو کسی بھی حملے کی صورت میں محفوظ بنایا گیا ہے، جبکہ ایٹمی توانائی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے اسرائیلی بیانات کو محض ’دعویٰ‘ قرار دیا ہے۔ہم یہ جانتے ہیں کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو چار اہم شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے: تحقیقی مراکز، مخصوص افزودگی کے مقامات، جوہری ری ایکٹر اور یورینیم کی کانیں۔مگر یہ جوہری تنصیبات کہاں کہاں موجود ہیں اور کس صلاحیت کی حامل ہیں؟،تصویر کا ذریعہReuters
کارون نیوکلیئر پاور پلانٹ
ایران کے تازہ ترین جوہری منصوبے کی تعمیر کا کام سنہ 2022 میں ملک کے جنوب مغرب میں تیل کی دولت سے مالا مال صوبہ خوزستان میں شروع ہوا جس کی مجوزہ صلاحیت 300 میگا واٹ بتائی جاتی ہے۔ایرانی سرکاری ذرائع کے مطابق جوہری توانائی سے چلنے والے اِس پاور پلانٹ کی تعمیر میں آٹھ سال لگیں گے اور اس پر تقریباً دو ارب ڈالر کے اخراجات آئيں گے۔ ایران نے رواں سال مئی میں اعلان کیا تھا کہ وہ اس موسم خزاں میں کارون جوہری پاور پلانٹ کے لیے ’جوہری جزیرے‘ کی تعمیر شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ایرانی اٹامک انرجی کے سربراہ محمد اسلامی کے مطابق اس جزیرے میں عمارتوں اور سہولیات کا ایک کمپلیکس شامل ہو گا جو جوہری پاور پلانٹ میں جوہری ری ایکٹر کے آپریشن کو یقینی بنائے گا۔
بوشھر نیوکلیئر پاور پلانٹ
یہ ایران کا واحد جوہری پاور پلانٹ ہے جو خلیج فارس کے ساتھ واقع ہے۔ واضح رہے کہ ایران کا جوہری پروگرام سنہ 1974 میں جرمنی کی مدد سے بوشھر میں ہی دو کمرشل جوہری ری ایکٹر بنانے کے منصوبے کے ساتھ شروع ہوا، لیکن پانچ سال بعد اسلامی انقلاب کے ساتھ ہی اس منصوبے پر کام رُک گیا تھا۔ایران نے سنہ 1990 کی دہائی میں روس کے ساتھ اس منصوبے پر دوبارہ کام شروع کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ لیکن اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ معاملہ اٹھايا گیا اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کو روکنے کے لیے قراردادیں منظور ہوئیں جس کی وجہ سے ماسکو کی جانب سے تاخیر ہوئی۔دسمبر 2007 میں ماسکو نے ایران کو افزودہ یورینیم سیلنڈروں کی فراہمی شروع کی، اور ری ایکٹر ستمبر 2011 میں ایران کے قومی بجلی کے گرڈ نظام سے منسلک ہوا جس سے 700 میگا واٹ بجلی پیدا ہونے لگی۔ اگست 2013 میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے تصدیق کی کہ بوشھر ری ایکٹر پوری صلاحیت سے کام کر رہا ہے۔تاہم اس کے ڈیزائن کی بنا پر حفاظتی خدشات پیدا ہوئے۔ یہ ڈیزائن جرمن اور روسی ماڈلز کا ایک مرکب ہے۔ اس کے متعلق خدشات میں سے ایک اس کا محل وقوع ہے کیوں کہ یہ ایسے علاقے میں موجود ہے جہاں زلزلے آتے رہتے ہیں۔ اپریل 2013 میں اس علاقے میں 6.3 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔
خنداب (اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر)
سنہ 2015 کے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کے تحت ایران نے ری ایکٹر کی مذید تعمیر روک دی، اس کا کچھ بنیادی حصہ ہٹا دیا، اور اسے ناقابل استعمال بنانے کے لیے کنکریٹ سے بھر دیا۔ایران نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کو سنہ 2026 تک ری ایکٹر کو فعال کرنے کے اپنے منصوبوں سے آگاہ کیا ہے، جو ممکنہ پھیلاؤ کے خدشات کے باعث بین الاقوامی توجہ مبذول کر رہا ہے۔
گاچین یورینیم کی کان
،تصویر کا ذریعہReuters
اصفہان یورینیم پروسیسنگ پلانٹ
،تصویر کا ذریعہReuters
- یورینیم ہیکسافلوورائیڈ گیس جو نطنز اور فردو میں یورینیئم افزودگی کے عمل میں استعمال ہوتی ہے۔
- یورینیم آکسائیڈ، جو ری ایکٹرز کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
- دھاتیں، جو کچھ قسم کے ایندھن کے عناصر کی تیاری کے ساتھ ساتھ جوہری بموں کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔
نومبر 2013 میں آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو اصفہان پلانٹ کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی جو کہ بین الاقوامی برادری کی ایران کی جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوششوں کی عکاسی کرتی ہے کہ انھیں فوجی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔
نطنز میں یورینیم افزودگی کی سہولت
،تصویر کا ذریعہMAXAR TECHNOLOGIES
فردو ری ایکٹر
،تصویر کا ذریعہEPA
پارچین ملٹری سائٹ
،تصویر کا ذریعہEPA
قم میں یورینیم کی افزودگی کا پلانٹ
جنوری 2012 میں ایران نے اعلان کیا کہ اس نے قم شہر کے قریب فردو میں زیرزمین مقام پر یورینیم کی افزودگی شروع کر دی ہے۔ اس جگہ کو خفیہ طور پر بنایا گیا تھا لیکن ستمبر 2009 میں سیٹلائٹ تصاویر سامنے آنے کے بعد ایران کو اس کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا۔جون 2011 میں ایران نے آئی اے ای اے کو مطلع کیا کہ اس نے درمیانے درجے کی افزودہ یورینیم تیار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ایران نے عندیہ دیا ہے کہ افزودہ یورینیم کو اس کے تہران ریسرچ ری ایکٹر کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جائے گا، جو طبی آئسوٹوپس تیار کرتا ہے۔ تاہم یورینیم کو 20 فیصد سے 90 فیصد تک افزودہ کیا جا سکتا ہے جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔نومبر 2013 میں طے پانے والے عبوری جوہری معاہدے کے تحت ایران نے درمیانے درجے کی افزودہ یورینیم کی پیداوار بند کر دی اور اپنے ذخیرے کو کم خطرناک شکلوں میں تبدیل کر دیا۔نومبر 2014 میں جاری ہونے والی آئی اے ای اے کی تازہ ترین رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ فردو سائٹ پر 5 فیصد تک افزودہ یورینیم تیار کی جا رہی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.