زیرِ زمین سونے کی غیرقانونی کانیں: ’یہ پُرخطر کام ہے مگر 15 دنوں کے 1100 ڈالر اور سونے کا کچھ حصہ مل جاتا ہے‘
- مصنف, Nomsa Maseko
- عہدہ, BBC News, Johannesburg
- 8 منٹ قبل
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے 52 سالہ ڈومیسو اپنے جیسے تقریباً 600 غیر قانونی طور پر کان کُنی کرنے والے کان کنوں کے ساتھ زیر زمین ایک پُرخطر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تاہم یہاں زیر زمین صرف کانیں نہیں ہیں بلکہ یوں کہیے کہ یہاں ایک چھوٹا سا ’شہر‘ بستا ہے جہاں کانوں میں باقاعدہ بازار بھی آباد ہیں اور یہاں تک کہ جسم فروشی بھی کی جاتی ہے۔ زیر زمین سونے کی ان کانوں میں بسے ایسے شہروں کو خطرناک جرائم پیشہ گینگز چلا رہے ہیں۔رد عمل کے خوف سے اصل نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈومیسو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’زیر زمین زندگی بہت بے رحم ہے۔ اکثر لوگ یہاں آ کر زندہ واپس نہیں لوٹتے۔ کان کی ایک تہہ میں صرف لاشیں اور ڈھانچے پڑے ہیں۔ ہم اسے ’زمہ زمہ کا قبرستان‘ کہتے ہیں۔‘ڈومیسو نے بتایا کہ کان کنی کی ایک رجسٹرڈ فرم نے جب اُن کی نوکری ختم کر دی تو انھوں نے دوسری نوکری ڈھونڈنے کی انتھک کوشش کی۔ تاہم غربت کا مقابلہ کرتے کرتے 20 برس گزر گئے لیکن اُن کے حالات نہ بدلے۔
پھر آٹھ سال قبل انھوں نے سونے کی ایک متروکہ کان میں ایک گینگ کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔ یہ کان ماضی میں کان کنی سے منسلک ایک رجسٹرڈ کمپنی کی ملکیت تھی۔جنوبی افریقہ میں غیر قانونی طور پر کان کنی کرنے والوں کو ’زمہ زمہ‘ کہتے ہیں۔ ڈومیسو تقریباً تین مہینے لگاتار زیر زمین ہی رہتے ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت گینگ کے لیے سونا کھود کر نکالتے ہیں۔ڈومیسو جیسے غیر قانونی کان کن اس کام سے اچھا خاصہ پیسہ کما لیتے ہیں۔ ہر تین ماہ بعد جب ڈومیسو کان سے باہر زمین پر آتے ہیں تو اپنی محنت سے کھودے ہوئے سونے کا کچھ حصہ بلیک مارکیٹ میں بیچ کر ایک زبردست منافع کما لیتے ہیں۔دن بھر کان میں مشقت کر کے وہ خود تو رات کو ایک بوری بچھا کر سوتے ہیں لیکن اُن کی فیملی ملک کے دارالحکومت جوہانسبرگ میں واقع اُن کے گھر میں آرام دہ زندگی بسر کر رہی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ یہ گھر انھوں نے غیر قانونی کان کنی کر کے خریدا تھا۔ایک کمرے کا یہ گھر خریدنے کے لیے انھوں نے 1 لاکھ 30 ہزار رینڈ یعنی تقریباً سات ہزار ڈالر نقد ادا کیے تھے جبکہ اب اسی گھر میں توسیع کر کے انھوں نے مزید تین کمرے تعمیر کر لیے ہیں۔گذشتہ آٹھ سالوں سے غیر قانونی کان کنی کرنے کے بعد ڈومیسو اب اس قابل ہیں کہ وہ اپنے تینوں بچوں کو نجی سکولوں میں تعلیم دلوا رہے ہیں جبکہ ان کی ایک بیٹی یونیورسٹی بھی جا رہی ہے۔ڈومیسو نے بتایا کہ ’مجھے اپنے بیوی بچوں کا خیال رکھنا ہے اور انھیں ایک اچھی زندگی دینے کا مجھے یہی ایک طریقہ سمجھ آتا ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ ایمانداری سے روزی روٹی کمانے کے لیے انھوں نے سالوں اچھی نوکری کی تلاش کی لیکن ناکام رہے۔ تاہم اُن کے مطابق وہ چوریاں اور لوٹ مار جیسے جرائم کرنے کے بجائے زیر زمین محنت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جو بذات خود ایک غیرقانونی کام ہے۔ڈومیسو جوہانسبرگ سے 145 کلومیٹر دور واقع سٹل فونٹین نامی ایک چھوٹے سے علاقے میں واقع ایک کان میں کام کرتے ہیں۔ حال میں یہی کان عالمی توجہ کا مرکز بنی جب وفاقی وزیر خمبڈسو چوانی نے وعدہ کیا کہ وہ زیر زمین کان میں ’دھواں مار کر‘ یہاں بسے سینکڑوں غیر قانونی کان کنوں کو نکال دیں گی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ حکام ایسے اقدامات لے رہے جن کی بدولت ان زیر زمین شہروں میں کھانے پینے اور دیگر اشیائے ضروریہ نہ پہنچ سکیں۔وزیر کے مطابق کہ ’مجرموں کی مدد نہیں کرنی بلکہ انھیں ستانا ہے۔‘مقامی پولیس کے مطابق یہ کان دو کلومیٹر گہرائی میں واقع ہے۔اس بارے میں عدالت نے ایک عبوری فیصلہ جاری کیا ہے کہ کان کنوں کو خوراک اور دیگر ضروری سامان پہنچایا جا سکتا ہے۔،تصویر کا ذریعہReuters
ڈومیسو بتاتے ہیں کہ جب وہ بطور ڈرِل آپریٹر ایک سونے کی کان کنی کرنے والی کمپنی میں نوکری کر رہے تھے تو انھیں ماہانہ 220 ڈالرز سے بھی کم تنخواہ ملتی تھی۔ سنہ 1996 میں ان کی نوکری اچانک ختم کر دی گئی جس کے بعد انھوں نے 20 سال کسی اچھی نوکری کی تلاش کی لیکن ناکام رہے۔محقق ڈیوڈ وین ویک کا کہنا ہے کہ ملک میں اس طرح کہ لاکھوں کان کن ہیں جبکہ صرف 36 ہزار تو ملک کی معیشت کی دھڑکن سمجھے جانے والے صوبے گوٹنگ میں ہی موجود ہیں۔گوٹنگ وہی صوبہ ہے جہاں 19ویں صدی میں پہلی بار سونا دریافت ہوا تھا۔بین الاقوامی منظم جرائم کے خلاف عالمی اقدام نامی مہم چلانے والے گروہ کی رپورٹ کے مطابق ’زمہ زمہ مہینوں زیر زمین رہتے ہیں اور باہر سے آنے والی خوراک اور ضروری سامان پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک اور محنت والا کام ہے۔‘رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’ان میں سے کئی کان کن اپنے پاس پستول، چھوٹی بندوق اور سیمی آٹو میٹک ہتھیار رکھتے ہیں تاکہ دشمن گروہ کے کان کنوں سے اپنی حفاظت کر سکیں۔‘بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈومیسو نے بتایا کہ ان کے پاس بھی ایک پستول ہوا کرتی تھی تاہم وہ اپنے گینگ کو ماہانہ آٹھ ڈالر کی ادائیگی کرتے تھے تاکہ ان کی حفاظت کی جا سکے۔انھوں نے بتایا کہ گینگ کے مسلح گارڈز ان کی 24 گھنٹے حفاظت کرتے تھے، خاص طور پر لیسوٹو سے تعلق رکھنے والے گینگز سے جو اپنے اسلحے کی طاقت کی وجہ سے مشہور ہیں۔ڈومیسو نے بتایا کہ سونا تلاش کرنے کے لیے چٹانوں کو توڑنے کے لیے وہ بارود کا استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر آوزار بھی استعمال کرتے تھے جیسا کہ کلہاڑی، بیلچہ اور چھینی وغیرہ۔جو بھی سونا انھیں ملتا تھا وہ اپنے گینگ لیڈر کو دے دیتے تھے جو اُنھیں ہر دو ہفتے کے کم از کم 1100 ڈالر دیتا ہے۔ ڈومیسو نے بتایا کہ انھیں سونے کا کچھ حصہ بھی دیا جاتا ہے جسے بلیک مارکیٹ میں فروخت کر کے وہ اوپری کمائی بھی کر لیتے ہیں۔ڈومیسو خود کو اُن ’خوش قسمت‘ کان کنوں میں شمار کرتے ہیں جو اس طرح کام کر پا رہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر کان کن اغوا کیے گئے ہیں اور یہاں غلامی میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ انھیں نہ ہی کوئی معاوضہ ملتا ہے نہ ہی سونا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.