زندہ لاروا سے ایسے زخموں کا علاج جن پر اینٹی بائیوٹکس بھی کام نہیں کرتیں

BIOMONDE

،تصویر کا ذریعہBIOMONDE

برازیل کے شہر ساؤ پالو میں واقع کیمپیناس کی ایک لیبارٹری سے ننھے لاروے برازیل کے کئی شہروں کے ہسپتالوں میں بھیجے گئے ہیں۔

یہ مکھیوں کی دو قسموں کے لاروا تھے جنھیں ایک بہت ہی مخصوص طبی مقصد کے لیے تیار کیا گیا تھا اور وہ طبی مقصد ہے ’مشکل سے بھرنے والے زخموں کا علاج۔‘

کیمپیناس سٹیٹ یونیورسٹی کی ماہرِ حیاتیات پیٹریسیا تھیسن نے ان لاروا کو ناصرف تخلیق کیا، بلکہ انھیں کھلایا پلایا اور جراثیم سے پاک بھی رکھا۔

دراصل یہ لاروا انسانی جسم کے مردہ ٹشوز کو کھانے کے کام آتے ہیں۔

لہذا جب اس لاروا کو متاثرہ زخموں کی جلد پر رکھا جاتا ہے- مثال کے طور پر، ذیابیطس یا وینس السر کے باعث بنے زخموں میں تو یہ لاروا مردہ ٹشوز کو کھا جاتے ہیں اور شفا بخش مادے خارج کرتے ہیں، اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کو کم کرتے ہیں یا ان کی ضرورت سرے سے ختم کر دیتے ہیں۔

یہ تکنیک جسے لاروا تھراپی کے نام سے جانا جاتا ہے، برازیل میں ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے، اس کی جڑیں قدیم علمِ طب سے ملتی ہیں۔

اگرچہ یہ کسی حد تک مانع عمل ہے تاہم ایسے تاریخی ریکارڈ موجود ہیں جن کے مطابق ہزاروں سال پہلے وسطی امریکہ میں مایان لوگ اور آسٹریلوی باشندے زخموں کو ٹھیک کرنے کے لیے لاروا ہی استعمال کرتے تھے۔

مثال کے طور پر، مایا لوگوں نے جانوروں کے خون سے ٹشوز کو دھویا، پھر مکھیوں کو متوجہ کرنے کے لیے انھیں سورج کی روشنی میں کھلا چھوڑ دیا اور پھر لاروا کو انسانی زخموں پر لگایا جہاں وہ پھیلنے لگے۔

اس تکنیک کو قرون وسطیٰ کے یورپ، امریکی خانہ جنگی (1861-65) اور پہلی جنگ عظیم (1914-18) کے معالجین نے بھی تجرباتی طور پر دستاویزات میں بیان کیا تھا۔

20ویں صدی تک، پینسیلن اور اینٹی بائیوٹک ادوایات کی ایجادات نے اس طرح کے علاج کو ختم کر دیا۔

مسئلہ یہ ہے کہ آج زیادہ سے زیادہ اینٹی بائیوٹکس مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا کے خلاف اپنی تاثیر کھو دیتے ہیں، جسے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) آج صحت عامہ کے لیے دس سب سے بڑے خطرات میں سے ایک سمجھتا ہے۔

نتیجے کے طور پر، حالیہ دہائیوں میں صحت کے زیادہ سے زیادہ ماہرین نے لاروا کی طرف رجوع کیا ہے تاکہ ان دائمی اور متاثرہ زخموں کا علاج کیا جا سکے جو اینٹی بائیوٹکس اور روایتی ڈریسنگ سے ٹھیک نہیں ہو پاتے۔

برازیل میں محقیقین چاہتے ہیں کہ نیشنل ہیلتھ سرویلنس ایجنسی (Anvisa) اس قسم کی تھراپی کی اجازت دے دے۔ کیونکہ فی الحال اس قسم کے علاج کی ادوایات یا طبی علاج کے طور پر درجہ بندی نہیں کی گئی ہے۔

لیکن یہ ایک ایسا علاج ہے جس میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے اور اس سے وابستہ خطرات بھی ہیں۔

BIOMONDE

،تصویر کا ذریعہBIOMONDE

لاروا متاثرہ ٹشو کھا جاتے ہیں

میگٹ تھراپی (کیڑے مکوڑوں یا سنڈیوں کے ذریعے کی جانے والی تھراپی) سب سے پہلے امریکی معالج ولیم بیئر نے کی تھی، انھوں نے 1917 میں پہلی جنگ عظیم کے دوران فرانس میں فوجیوں کے علاج کے لیے انھیں استعمال کیا۔

فرنٹ لائنز پر واقع ایک ہسپتال میں بیئر نے دو ایسے مریض دیکھے جو بہت تکلیف میں تھے: ان فوجیوں کی ٹانگوں اور پیٹ کے زخم کھلے ہوئے تھے، انھوں نے بغیرعلاج کے خندقوں میں دن گزارے تھے جہاں انھیں پانی اور کھانا تک نہیں مل سکا تھا اور گندگی والے ماحول میں لڑ رہے تھے۔

تاہم بیئر نے نوٹ کیا کہ دونوں فوجیوں کے زخم میگٹس سے بھرے ہوئے تھے۔۔ اور یہ کہ بظاہر کمزور نظر آنے کے باوجود، دونوں فوجی بخار یا بدبو یا سنگین انفیکشن کے علامات کے بغیر ہسپتال پہنچے۔

بیئر نے اپنے مطالعے میں لکھا کہ ’جب میں نے زخموں کو دیکھا، خاص طور پر ران کے زخم تو میں مریضوں کی اچھی حالت کو دیکھ کر حیران رہ گیا‘۔

اس واقعہ کے بعد امریکی ڈاکٹر نے لیبارٹری میں زخموں پر لاروا کے اثر کو جانچنے کا فیصلہ کیا، ان میں سے کچھ کی شفا یابی کی صلاحیت کی نشاندہی کی، حالانکہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بیئر کے استعمال کردہ لاروا جنھیں جراثیم سے پاک نہیں کیا گیا تھا، ان کی وجہ سےکچھ مریضوں میں سنگین نوعیت کے ثانوی انفیکشن نے جنم لیا جیسا کہ تشنج۔

GETTY IMAGES

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جراثیم سے پاک کرنا

ایک صدی سے زیادہ عرصے بعد آج کی میگٹ تھراپی بہت مختلف ہے، اور بیئر یا مایان کے برعکس آج یہ حفظان صحت کے اصولوں کو مدِنظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ تاہم اس کی بنیاد وہی ہے: یعنی مکھیاں۔

دراصل بہت خاص قسم کی مکھیاں اور برطانیہ طبی علاج کے لیے مکھیوں کی لاکھوں انواع میں سے صرف ایک کا استعمال کرتا ہے جسے لوسیلیا سیریکٹا کہا جاتا ہے۔

بی بی سی برازیل سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر یامنی نگم، برطانیہ کی سوانسیا یونیورسٹی میں بائیو میڈیکل سائنسز کی پروفیسر کہتی ہی کہ یہ مکھیوں کی وہ قسم ہے جو کوڑے دان اور بوسیدہ لاشوں میں افزائش کے لیے جانی جاتی ہے۔ اور یہی چیز اس کے لاروا کو کو دائمی انسانی زخموں کا علاج کرنے کے قابل بناتی ہے۔

نگم کہتی ہیں ’وہ متاثرہ اور بوسیدہ ٹشوز کو کھاتی ہیں، زخم کو صاف کرتی ہیں اور اچھی جلد کی نشونما کا عمل تشکیل دیتی ہیں۔‘

اس کا بنیادی استعمال ذیابیطس کے مریضوں میں ہوتا ہے جن کے زخموں کا اگرعلاج نہ کیا جائے تو اعضا کٹ جانے یا موت کا باعث بننے کا خطرہ ہوتا ہے۔

نگم بتاتی ہیں کہ یہ ایسے زخم ہیں جو ٹھیک ہی نہیں ہوتے اور بعض اوقات مریض کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا، کیونکہ زخم والے حصے کے اعصاب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ان کے اعصاب کا نظام بگڑ جاتا ہے اورعموماً ایسے مریضوں میں لاروا استعمال کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ لوسیلیا سیریکٹا مکھی کا لاروا ایک غیر حملہ آور نسل ہے، جو انسانی جسم پر حملہ کرنے سے قاصر ہے اور وہ صحت مند ٹشو نہیں کھاتی، اس لیے وہ اس کام کے لیے بہترین ہے۔

یہ بھی پڑھیے

برطانیہ میں یہ علاج لیبارٹری میں جراثیم کش لاروا کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اسے چائے والے ٹی بیگز کی طرح چھوٹے بائیولوجیکل تھیلیوں میں جمع کیا جاتا ہے ۔

طبی نگرانی میں ان تھیلیوں کو متاثرہ زخم پر پانچ دن تک رکھا جاتا ہے اور پھر اسے ضائع کر دیا جاتا ہے۔

مسام دار تھیلی لاروا کو زخم کے ساتھ براہ راست رابطے میں آنے کی اجازت دیتی ہے اور اس بیماری کا فضلہ کھانے سے یہ لاروا 3 سے 12 ملی میٹر تک اپنے سائز کو چار گنا کر سکتا ہے۔

نگم بتاتی ہیں کہ لاروا کے دانت نہیں ہوتے: وہ صرف ایک مائع خارج کرتے ہیں جو تھیلی سے گزر کر زخم کو اپنے اندر ہضم اور اسے صاف کرتا ہے۔ اور پھر وہ مائع کو دوبارہ نگل لیتے ہیں اور اس سارے عمل کے دوران وہ (لاروا) مسلسل تھیلی کے اندر ہی رہتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہ علاج ناصرف معذوری کو روکنے میں مددگار ہے بلکہ اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت کو کم کرتا ہے۔

BIOMONDE

،تصویر کا ذریعہBIOMONDE

میگٹ تھراپی کا استعمال سنہ 2000 کی دہائی سے برٹش پبلک ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے چند ہسپتالوں میں ہونا شروع ہوا ، اسی وقت اسے امریکی ڈرگ ریگولیٹری ایجنسی (ایف ڈی اے) نے منظور کیا تھا۔

برطانوی لاروا کو ویلش کمپنی بائیو مونڈے کے ذریعے کلچرڈ، جراثیم سے پاک اور پیک کیا جاتا ہے۔ کمپنی نے بی بی سی نیوز برازیل کو بتایا کہ وہ این ایچ ایس کو سالانہ 5000 سے زیادہ بائیو بیگس فراہم کرتی ہے۔

کمپنی کا جرمنی میں بھی ایک یونٹ ہے جو یورپی ممالک کو لاروا برآمد کرتا ہے۔

این ایچ ایس کے مطابق بعض کیسز میں یہ علاج درد بڑھنے، جلد کی جلن یا خون بہنے کا باعث بنتا ہے، اور ان صورتوں میں لاروا کو نکالنا ضروری ہے۔

ڈاکٹر نگم کہتی ہیں کہ لاروا اینٹی کوگولینٹ پیدا کرتے ہیں، اس لیے ہم انھیں ایسے مریضوں میں استعمال نہیں کر سکتے جن میں خون بہنے کا زیادہ خطرہ ہو۔

برازیل کی پیٹریشیا تھیسن نے خبردار کیا کہ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس قسم کا علاج کبھی بھی طبی ماہرین کے بغیر نہیں ہونا چاہیے اور لاروا کو لیبارٹری میں جراثیم سے پاک کیا جانا چاہیے۔

وہ مزید وضاحت کرتی ہیں کہ ’آپ کو کبھی بھی جنگلی لاروا استعمال نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ (کوئی ایسا شخص جو ماہر نہیں ہے) اس کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آیا یہ لاروا کی بے ضرر اور محفوظ نسل ہے اور نہ ہی انھیں یہ پتا چل سکتا ہے کہ یہ لاروا بیکٹیریا کی کتنی مقدار اپنے اندر ہضم کر سکتا ہے۔

لیکن اگر تھراپی کے خطرات ممکنہ فوائد سے کم ہیں (مثال کے طور پر معذوری (اعضا کاٹنے) اور بڑے پیمانے پر انفیکشن کی روک تھام) وغیرہ تو علاج پر اتنی پابندی کیوں ہے؟

GETTY IMAGES

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گھن آنا

یامنی نگم کہتی ہیں کہ یہ طریقہ علاج ابھی زیرِ استعمال ہے۔ ہم نے اسے صرف بہت مشکل زخموں پر استعمال کیا ہے جو دوسری صورت میں ناقابل علاج ہیں۔ اور ہم اسے باقی زخموں پر بھی استعمال کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

وہ پوچھتی ہیں کہ ’ہم لاروا کے علاج کو صرف آخری حربے کے طور پر کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ ہم کیوں کچھ مریضوں کے سالوں تک تکلیف اٹھانے کا انتظار کرتے ہیں، بعض اوقات مختلف قسم کی پٹیاں اور مرہم آزماتے ہیں، جبکہ لاروا کو صرف چار دن تک استعمال کرنا کافی ہو گا؟‘

پچھلے سال نگم اور ان کے ساتھیوں نے برطانیہ میں ایک رائے شماری کرائی، جس میں 412 جواب دہندگان میں سے صرف 36 فیصد نے کہا کہ وہ فرضی دردناک زخم کے علاج کے لیے میگٹس کے استعمال سے اتفاق کریں گے۔

سروے کے مطابق اس تھراپی سے بنیادی تشویش گھن ہے۔

نگم کے مطابق دیگر مشکلات یہ ہیں کہ روایتی ادویات اور مرہم کے برعکس، لاروا اتنی آسانی سے پیدا اور ذخیرہ نہیں کیا جاتا اور انھیں اکثر ڈاکٹروں اور نرسوں کی طرف سے مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ سپر بگز سے نئی تحقیق کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔

نگم کا کہنا ہے کہ ’بیکٹیریا انتہائی ذہین مخلوق ہیں۔ کچھ اینٹی بایوٹک ہیں جو بعض بیماریوں کے خلاف کام کرتی ہیں لیکن زیادہ کیسز میں بیکٹیریا زخموں میں بس جاتے ہیں اور دیوار بنا لیتے ہیں، جسے ہم بیکٹیریل بائیو فلم کہتے ہیں،یہ ایسی چیز ہے جو اینٹی بائیوٹکس کے خلاف بہت مزاحم ہے اور اس کا علاج کرنا بہت مشکل ہے۔‘

’ہم لیبارٹری میں اور مریضوں میں یہ دکھانے کے قابل تھے کہ لاروا نہ صرف اس بایوفلم کو توڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں بلکہ یہ کہ ان کا سیال بھی اسے بننے سے روکتا ہے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے یہ علم آگے بڑھ رہا ہے ممکن ہے کہ مستقبل میں لاروا کے نکالے گئے سیال مادے کو سرجری سے پہلے انسان کے مصنوعی اعضا کو پانی سے محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا جا سکے، مثال کے طور پر انفیکشن سے روکنے کے لیے۔

نگم کا خیال ہے کہ ہمیں ان مخلوقات کو دیکھنے کے انداز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

’مجھے لگتا ہے کہ گھن والے عنصر کے باعث لاروا تھراپی زیادہ مقبول نہیں ہو گی اور لوگ ہمیشہ اس سے ہچکچاتے رہیں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میں سمجھتی ہوں کہ حشرات، مکھیوں اور کیڑوں سے منسلک منفی تاثر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں انھیں دوا یا طبی آلات کے طور پر سوچنے کی ضرورت ہے، نہ کہ کوڑے دان میں نظر آنے والی کوئی مشکل چیز۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ