سپریم کورٹ نے پنجاب میں زمین کی تقسیم کے تنازع کے کیس میں درخواستوں کی ڈرافٹنگ ٹھیک نہ ہونے پر پاکستان بار اور پنجاب بار کو نوٹس جاری کر دیے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ بار کونسلز بتائیں کہ پنجاب کے لاء کالجز میں ڈرافٹنگ سکھائی جاتی ہے یا نہیں؟ بار کونسلز اپنے جوابات تحریری طور پر جمع کرائیں تاکہ عدالت فیصلہ دے سکے، موجودہ کیس کے میرٹس سے بار کونسلز کا کوئی تعلق نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ درخواست میں استدعا ہی درج نہیں ہے، پنجاب کے وکیل دعویٰ لکھنا کب سیکھیں گے؟ کیا پنجاب کے تمام لاء کالج بند کر دیں؟ عرضی نویس سے دعویٰ مرتب کرایا جاتا ہے، بتائیں کیا قانون عرضی نویس سے دعویٰ مرتب کرنے کی اجازت دیتا ہے، قانون میں کہاں لکھا ہے کہ وکیل صرف عدالت میں دلائل دے گا؟
انہوں نے کہا کہ وکیل کی خدمات لینے کا مقصد ہے وہ دعویٰ لکھ کر اس کی تصدیق کر کے جمع کرائے، سب سے زیادہ لڑائی جھگڑے پنجاب میں ہوتے ہیں، سب سے زیادہ وکلاء کی ہڑتالیں بھی پنجاب میں ہوتی ہیں، پنجاب کے سینئر وکلاء بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہڑتالیں کرتے ہیں، ہڑتال کرنا وکیل کا حق کیسے ہو گیا؟ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور یہاں عرضی نویس سے کیس کی ڈرافٹنگ کرائی جاتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ پورا نظام ہی خراب کردیا گیا ہے، کیا پنجاب کے لاء کالج ڈرافٹنگ نہیں سکھاتے؟ بلوچستان کے پسماندہ علاقے تربت جائیں، وہاں بھی وکیل خود ڈرافٹنگ کرتا ہے۔
وکیل چوہدری افراسیاب نے کہا کہ میں نے تو یہ درخواست نہیں تحریر کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے توسط سے تمام وکلاء کو پیغام دے رہے ہیں کیس کی تیاری کیا کریں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے 6 ہفتوں کے بعد مقرر کیا جائے۔
Comments are closed.