- مصنف, ٹم مانزے
- عہدہ, بی بی سی نیوز برلن
- 3 منٹ قبل
ڈنیلا کلیت خاموشی سے زندگی گزار رہی تھیں۔ وہ اپنے کتے کے ساتھ واک پر نکلتی تھیں اور اپنے پڑوسی کے بچوں کو ریاضی کی ٹیوشن پڑھاتی تھیں۔ مگر جب انھیں فروری کے آخر دنوں میں گرفتار کیا گیا تو پولیس نے ان کے اپارٹمنٹ سے لاکھوں یورو کیش اور پانچ ہتھیار بھی قبضے میں لیے۔ ان ہتھیاروں میں کلاشنکوف اور راکٹ لانچر بھی تھا۔ڈنیلا 65 برس کی ہیں اور وہ گذشتہ 30 برس سے مفرور تھیں۔ وہ پولیس کو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک عسکریت پسند گروہ ’ریڈ آرمی فیکشن‘ (آر اے ایف) کے جرائم کے سلسلے میں مطلوب تھیں۔ یہ گروہ 1970 اور 1990 کی دہائی میں فعال تھی۔اس عسکریت پسند گروہ کو ابتدا میں ’بادر مینہوف‘ گروپ پکارا جاتا تھا۔ یہ گروپ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے اہم کاروباری اور صنعتی شعبے کی سینیئر شخصیات کو اغوا یا قتل کر دیتا تھا۔ ایک نسل کے گزر جانے کے باوجو جرمنی میں اس گروہ کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کو کوئی نہیں بھلا سکتا۔
برلن میں ایک پوڈ کاسٹ ٹیم نے چہرے کی شناخت کے آلے کا استعمال کرتے ہوئے ڈنیلا کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔یہ پوڈ کاسٹ کرسمس سے کچھ روز قبل یعنی ڈنیلا کی گرفتاری سے چند ہفتے پہلے نشر ہوا۔ تاہم پولیس اس کی تردید کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اسے ایک شہری سے اس متعلق ابتدائی معلومات ملی تھیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesگوٹنگن یونیورسٹی میں سیاسی تشدد کی تاریخ کے ماہر پیٹرا تیرہوون کا کہنا ہے کہ ’آر اے ایف جرمن عوام خاص طور پر مغربی جرمنی میں رہنے والوں کے ذہنوں پر نقش ہے۔‘اس سال کے آخر میں جرمن ٹیلی ویژن ڈوئچے بینک کے سربراہ الفریڈ ہیراؤسن کے بارے میں چار حصوں پر مشتمل ایک نیا ڈرامہ نشر کرے گا، جنھیں سنہ 1989 میں دیوار برلن کے افتتاح کے فوراً بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ سڑک کے کنارے نصب ایک جدید ترین بم سے اس وقت ان کی گاڑی کو ہدف بنایا گیا جب وہ کام پر جا رہے تھے۔سنہ 2020 میں جرمنی کی پہلی اوریجنل نیٹ فلیکس سیریز ’اے پرفیکٹ کرائم‘ نے ڈیٹلیو روویڈر کے قتل پر روشنی ڈالی گئی۔ وہ توہیندسالٹ نامی تنظیم کے سربراہ تھے، جو سابق مشرقی جرمنی میں تمام سرکاری صنعتوں کی نجکاری کے لیے جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد قائم کی گئی تھی۔ڈیٹلیو کو سنہ 1991 میں دوسلدورف میں واقع ان کے گھر کے اندر کھڑکی سے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ابھی تک ان میں سے کسی بھی قتل کے مجرمان کو گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔یہ نیٹ فلیکس سیریز بیٹز برادرز کی پروڈکشن کمپنی نے بنائی تھی۔ اپنی اس سیریز کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کے شریک ڈائریکٹر جارج شوشنتالا کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایسے منصوبے کی تلاش میں تھے کہ جس کے بارے میں پورا ملک پھر بات کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت بڑا کام تھا اور موقع کی مناسبت سے تھا۔ اس سے کافی بحث مباحثہ شروع ہونا تھا۔‘’اے پرفیکٹ کرائم‘ میں کرائم سین یعنی جائے وقوعہ سے آر اے ایف کے ملنے والے خط کا ذکر ہے جس میں ڈیٹلیو کے قتل کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔ اس سے وہ منظرنامے بھی سامنے آتے ہیں کہ انھیں کس نے قتل کیا۔ مؤرخ پیٹرا تیرہوون آر اے ایف کے جرائم کی سنگینی کو کم کر کے پیش کرنے جیسے خطرات سے خبردار کرتی ہیں۔ ان کے مطابق اس میں بہت زیادہ توجہ مجرموں پر دی گئی ہے جبکہ متاثرین کو بہت کم اہمیت دی گئی ہے۔
دستاویزی فلموں میں الفرڈ ہراسن متاثرہ افراد میں سے ایک ہیں جنھیں شاید زیادہ توجہ ملی۔ وہ ایک کرشماتی اور بااثر بینکر ہونے کے علاوہ اس وقت جرمن چانسلر ہلمت کوہل کے دوست بھی تھے۔ ایک نئی دستاویزی فلم اس سال کے آخر میں چار حصوں پر مشتمل ایک ٹیلی ویژن ڈرامے کی صورت میں بھی نشر ہو گی۔ اس فلم کے رائٹر تنجا لینگر نے الفرڈ ہراسن کو افسانے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ وہ اپنے ناول کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’جب میں اپنا ناول لکھ رہی تھی تو اس شخص کو خراج عقیدت پیش کرنا میرے لیے اہم تھا۔ یہ ناول ایک نوجوان خاتون اور ایک معمر بینکر کے درمیان تعلقات پر مبنی ہے۔ تنجا اور الفرڈ کی آخر تک گہری دوستی رہی۔‘اگرچہ آر اے ایف نے الفرڈ کے قتل کی ذمہ داری قبول کی، تنجا کی رائے میں معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے ناول کے لیے کئی برس تک تحقیق کی اور سابق مشرقی جرمن خفیہ پولیس ’سٹاسی‘ کے آرکائیو کافی وقت گزارا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرا مطالعہ یہی ہے کہ چاہے یہ قتل آر اے ایف نے ہی کیوں نہ کیا ہو مگر شاید پھر بھی کچھ اور لوگ بھی اس میں ملوث تھے۔‘یہ وہ غیر یقینی صورتحال ہے جو کسی حد تک مسلسل دلچسپی کی وجہ بنتی ہے۔ سنہ 1980 کی دہائی سے اب بھی بہت سے ایسے قتل ہیں جن کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے اور یہ ممکن ہے کہ ڈنیلا کلیت، جو اب جیل میں ہیں، ان کے بارے میں کچھ جانتی ہوں۔ان کی گرفتاری سے کچھ ہی عرصہ قبل برلن میں ایک پوڈ کاسٹ کمپنی ’ان ڈن‘ نے ان کی تلاش پر کام شروع کیا۔ ان سے ایک سامع نے رابطہ کیا تھا جس نے کہا تھا کہ وہ ایک پارٹی میں گیا تھا جہاں ایک عورت نے ڈنیلا کلیت ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس سیریز پر کام کرنے والے پیٹرک سٹیگمن کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک بہت عجیب سی کہانی ہے۔‘’ان ڈن‘ نے مصنوعی ذہانت کے ایک ماہر کی خدمات حاصل کیں جس نے ڈنیلا کی شناخت کے لیے ایک سافٹ ویئر تیار کیا اور ان کے خلاف جاری ہونے والے ایک پرانے اشتہاری پوسٹر پر چھپی ان کی تصویر سے ان کے چہرے کی شناخت کی۔یہ ’کلاڈیا‘ نامی ایک خاتون کے چہرے سے مل گیا جو برلن میں رہ رہی تھیں۔ مگر جب یہ پوڈکاسٹرز ان کی تلاش میں نکلے تو وہ کہیں نہیں ملیں۔ دو ماہ بعد جب ڈنیلا کلیت کو گرفتار کیا گیا تو یہ واضح ہو گیا کہ انھوں نے سافٹ ویئر سے صحیح عورت کی شناخت کی تھی۔ پیٹرک سٹیگمین کو یاد ہے جب انھوں نے گرفتاری کی خبر سنی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت عجیب و غریب جذبات تھے۔‘سرکاری وکیل ابھی ڈنیلا کے خلاف ثبوت اکھٹے کر رہے ہیں مگر ابھی تک ان پر فرد جرم عائد نہیں ہو سکی ہے۔ پیٹرا تیرہوون کو ابھی یقین نہیں ہے ڈنیلا کسی بھی طرح پرانے جرائم کے حقائق تک پہنچنے میں کسی بھی طرح مدد کرنے کے لیے آمادہ ہوں گی۔وہ کہتی ہیں کہ ’آر اے ایف کے سابق ارکان کی اکثریت ماضی کے بارے میں بات نہیں کرتی۔‘ ان کے مطابق ’یہ ایک سیاسی فرقے کی طرح ہے، یہ ایک طرح سے خاموش رہنے والا ’گروہ‘ ہے اور اس لیے شاید وہ خاموش رہیں گی۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.