جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

’ریچھوں کے ساتھ تیراکی کا خواب جسے میرے والد نے ’خود کش مشن‘ کہا‘

آموس نیکحوم: قطبی ریچھوں کے ساتھ تیراکی، ایک فوٹوگرافر کا اپنے ’پاگل خواب‘ کا تعاقب

خلیج ہڈسن میں تین قطبی ریچھ

،تصویر کا ذریعہAmos Nachoum

،تصویر کا کیپشن

اس پرفیکٹ تصویر کے لیے انھیں 15 سالوں تک انتظار کرنا پڑا تھا

’خوف مجھے چوکنا رہنے پر مجبور کرتا ہے لیکن اس نے مجھے کبھی کچھ کرنے سے روکا نہیں ہے۔‘

یہ کہنا ہے بین الاقوامی سطح پر معروف وائلڈ لائف فوٹوگرافر آموس نیکحوم کا جن کی زیر آب تصاویر دنیا بھر میں مقبول ہیں۔

بر اعظم انٹارکٹکا سے لے کر بلند آرکٹک تک، انھوں نے انتہائی مشکلات اور سخت حالات میں زیر آب غوطہ لگا کر پانی کے اندر رہنے والے کچھ جنگلی و آبی حیات کی انتہائی شاندار اور دلکش تصاویر کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا ہے۔

ان بہت سی مخلوقات جن کی انھوں نے زیر آب فوٹوگرافی کی ہے ان میں بلیو وہیل، آرکاس ، ایناکونڈا ، شارک اور افریقہ کے دریاؤں میں رہنے والے مگرمچھ شامل ہیں۔

مگر بہت سے دیگر فوٹوگرافروں کے برعکس آموس پانی کے اندر حفاظتی پنجرہ استعمال نہیں کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انھوں نے بی بی سی کے ریڈیو پروگرام آؤٹ لک کو بتایا کہ ’میں تصویر میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ گریٹ وائٹ شارک کے ساتھ کام کرنا کیسا ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم انھیں تنگ نہ کریں، انھیں اکسائیں نہ تو ہم ان کے ساتھ پرامن طور پر کام کر سکتے ہیں۔‘

سفید شارک

،تصویر کا ذریعہAmos Nachoum

،تصویر کا کیپشن

ان تصاویر کو لیتے ہوئے آموس حفاظتی پنجرے کا استعمال نہیں کرتے

کوئی بدروحیں نہیں

درحقیقت وہ اس وقت گریٹ وائٹ شارک سے صرف ایک میٹر کی دوری پر تھے جب انھوں نے اس کی تصاویر لیں تھیں۔

ہمیں شارک کے جبڑے ایک خوف کی علامت کے طور پر دیکھنے کی عادت پڑ چکی ہے لیکن اسرائیلی فوٹوگرافر جانوروں میں طاقت اور خوبصورتی دیکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ 45 برسوں سے وہ اس عام غلط فہمی کو تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ گریٹ وائٹ شارک جیسی کچھ مخلوقات صرف بے رحمانہ قتل کی مشینیں ہیں۔

وہ اکثر کہتے ہیں کہ ’سمندر میں کوئی بدروحیں نہیں رہتی۔‘

شارک کی تصویر لیتے ہوئے آموس

،تصویر کا ذریعہAmos Nachoum

،تصویر کا کیپشن

فوٹوگرافر زیر آب شکاری جانداروں کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں

آج فوٹوگرافی کے میدان میں چوٹی کے فوٹوگرافروں میں سے ایک اور متعدد ایوارڈز کے حامل آموس نیکحوم کی کیمرے سے تعلق کی تاریخ ان کی نوعمری سے ہیں جب وہ 12 سال کی عمر میں اپنے والد کے سٹوریج میں اس سے ٹکرائے تھے۔

اس وقت وہ اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں اپنے والدین کے ساتھ رہتے تھے۔ جو ایک یہودی جوڑا تھا اور لیبیا سے نقل مکانی کر کے یہاں آیا تھا۔

آموس نے ایک پرانے کیمرے کو کیسے استعمال کرنا ہے سیکھا اور تصاویر لینا شروع کر دیں۔

سیل چیتا اور پنگوئن

،تصویر کا ذریعہAmos Nachoum

،تصویر کا کیپشن

آموس نے انٹارکٹکا یا قطب جنوبی کے یخ بستہ پانی میں ایک سیل چیتے کو پنگوئن کا شکار کرتے ہوئے تصویر لی

وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے محسوس کیا کہ فوٹوگرافی نے مجھے اپنے آپ کا اظہار کرنے کا ایک موقع دیا۔‘

اپنے والد جنھیں وہ ایک سخت مزاج انسان کے طور پر یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا والد کے ساتھ ایک مشکل تعلق تھا۔

انھوں نے 14 برس کی عمر میں کمانے کے لیے گھر چھوڑ دیا تھا اور ایک مقامی مچھیرے کے ساتھ کام شروع کیا جس نے انھیں سب سے اہم ہنر غوطہ کیسے لگانا ہے سیکھایا تھا۔

اسرائیل چھوڑنا

بعدازاں ایک نوجوان کے طور پر انھوں نے فوج میں سروس کی جو اسرائیل میں لازمی ہے اور 1973 کی عرب اسرائیل کی جنگ بھی لڑی

آموس کا کہنا ہے کہ وہ جنگ میں تشدد سے صدمے میں آ گئے تھے اور انھوں نے امریکہ میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کے لیے اسرائیل کو چھوڑ دیا۔

سمندر میں غوطہ خور کی تربیت دینے کی ملازمت سے قبل انھوں نے کمانے کے لیے نیو یارک میں ٹیکسی چلانے سے لے کر دیگر معمولی ملازمتیں اور مزدوری بھی کی۔

جب وہ سیاحوں کے ایک گروہ کو غوطہ خوری سکھانے کے لیے موجود تھے تو انھوں نے ایک بوڑھے امریکی شخص کو پانی کے اندر تصاویر کھینچتے ہوئے دیکھا جہاں سے انھیں یہ خیال آیا کہ وہ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔

بلیوگا وھیل

،تصویر کا ذریعہAmos Nachoum

،تصویر کا کیپشن

کیمرے میں جھانکتی ہوئی ایک وھیل

جب انھوں نے غوطہ خوری اور فوٹوگرافی کو یکجا کر لیا تو وہ سمندر کے نیچے رہنے والی بڑی مخلوقات کو ایک نئے نظریے سے سب کے سامنے لانا چاہتے تھے۔

’پانی کے نیچے رہنے والے بڑے جانوروں، شارک اور وہیل کے ساتھ ہمارا تعلق بہت منفی تھا لیکن میرا اس کے بارے میں نظریہ بہت مثبت تھا۔‘

میرا دیرینہ خواب

آموس کا ایک خاص خواب تھا جسے وہ پورا کرنا چاہتے تھے کہ وہ دنیا کے پہلے شخص ہوں جو پانی کے اندر برفانی ریچھ کی تصویر لیں۔

آموس قطب جنوبی میں

،تصویر کا ذریعہAmos Nachoum

،تصویر کا کیپشن

آموس نے اپنے دو شوق غوطہ خوری اور فوٹوگرافی کو ملا دیا

انھیں یاد ہے کہ ان کے والد کو جب اس متعلق علم ہوا تھا تو انھیں نے اسے ’خودکش مشن‘ کہا تھا۔

آموس کہتے ہیں ’میری ان سے بالکل نہیں بنتی تھی‘ وہ مجھے شادی کرتا اور اپنی زندگی میں بستا دیکھنا چاہتے تھے۔

’انھوں نے میرے حوالے سے تمام امیدیں ختم کر دی تھی،جو میں کرتا تھا وہ سمجھ نہیں پاتے تھے ۔‘

اپنے عزم پر قائم آموس نے سنہ 2000 میں موسم بہار میں آرکٹک کا رخ کیا تھا۔ وہاں ایک مقامی گائیڈ کی مدد سے انھوں نے ایک نر برفانی ریچھ کو دیکھا اور پانی میں چھلانگ لگا دی۔

وہ کہتے ہیں ’آپ کو ایسا کچھ کرنےسے قبل ہمیشہ ایک بہت اچھے گائیڈ اور بہت سے تجربے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس میں کوئی حادثہ ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے۔‘

جیسے جیسے برفانی ریچھ ان کے قریب آ رہا تھا، تیز ہوا آموس سے ان کی کشتی کو دور لے جا رہی تھی۔

لیکن آموس نے اپنی تیاری پہلے ہی کر رکھی تھی، انھوں نے پڑھا تھا کہ برفانی ریچھ دس میٹر کی گہرائی سے زیادہ غوطہ نہیں لگا سکتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’برفانی ریچھ بہت وزنی ہوتا ہے اور اس کے جسم میں بہت سی چربی اور بال ہوتے ہیں۔ اس کو پانی میں نیچے جانے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔‘

دہائیوں کے تجربے نے ان کو سیکھا دیا تھا کہ کسی بھی جانور کی جانب سے ممکنہ حملے کے خطرے کے اشارے کو بھانپ لیں۔

آموس نیلے وھیل کے ساتھ تیرتے ہوئے

،تصویر کا ذریعہAmos Nachoum

،تصویر کا کیپشن

آموس نیلے وھیل کے ساتھ تیرتے ہوئے

بال بال بچے

جب برفانی ریچھ ان سے صرف چھ میٹر کی دوری پر تھا تو آموس نے نیچے کی جانب غوطہ لگا دیا اور برفانی ریچھ نے ان کا پیچھا کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’تب ایک ڈرامائی صورتحال تھی۔‘

’میں تقریباً 15 سے 17 میٹر گہرائی میں تھا اور وہ مسلسل میرے پیچھے آ رہا تھا، اور میں صرف اس کے ہاتھ کے پنجے، ناک اور تھوتھنی دیکھ سکتا تھا، ایمانداری سے میں خوفزدہ ہو گیا تھا۔‘

آموس کے پاس ایک بڑے گوشت خور جانور سے لڑنے یا بچ نکلنے کا بہت ہی کم موقع تھا۔

’جب میں تقریباً 75 فٹ نیچے تھا تو میں نے اوپر دیکھا۔ میری طرف عمودی طور پر سامنے ہونے کی بجائے ریچھ زیادہ افقی تھا اور پانی کی سطح کے ساتھ تیراکی کر رہا تھا۔‘

تین قطبی ریچھ

،تصویر کا ذریعہAmos Nachoum

،تصویر کا کیپشن

اموس کی تصاویر دنیا بھر میں مقبول ہوئیں

وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور خوش قسمتی سے جب وہ دوبارہ پانی سے باہر آئے تو برفانی ریچھ جا چکا تھا۔

آرکٹک کا دورہ بہت مہنگا پڑتا ہے اور اس کی تیاری میں ایک چارٹرڈ طیارے اور وہاں ٹینٹوں کے انتظام کا خرچہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

آموس انے خواب کی تکمیل کے لیے دوسری مرتبہ کوشش کرنے کے لیے پر عزم تھے۔

دوسری بار کوشش

یہ موقع برسوں بعد اس وقت سامنے آیا جب ان کے شاگرد یوناتن میر نے ان کے متعلق ایک ڈاکیومنٹری فلم بنائی اور دونوں اس کے لیے سنہ 2015 میں قطب شمالی کے ویرانوں کی سیر کے لیے نکلے۔

قطب شمالی میں تین ریچھ

،تصویر کا ذریعہAmos Nachoum

،تصویر کا کیپشن

آموس کو اس وقت دھچکہ لگا جب ایک قطبی ریچھ نے ان پر حملہ کر دیا

اس منصوبے کے لیے دس لاکھ ڈالر کا بجٹ بنایا گیا تھا جس رقم سے وہ وہان صرف پانچ دنوں تک قیام کر سکتے تھے۔ انھوں نے قسمت کی یاوری کے بغیر چار دنوں تک تلاش کیا اور پھر انھیں خوشی کا وہ لمحہ میسر آیا۔

’ہم نے انھیں پہاڑی سے نیچے آتے اور پانی میں داخل ہوتے دیکھا۔‘

آخر کار انھوں نے ایک مادہ ریچھ کو اپنے دو بچوں کے ساتھ پانی میں اترتے دیکھ لیا تھا۔ ایک قطبی ریچھ کی اپنے دو بچوں کے ساتھ تصویر کسی فوٹو گرافر کے لیے شاید پہلی تصویر ہوگی۔

مچھلیوں کا ایک غول

،تصویر کا ذریعہAmos Nachoum

،تصویر کا کیپشن

آموس چار دہائیوں سے سمندروں کی پہنائیوں کی سیر کر رہے ہیں

اس بار آموس کے لیے ایک غوطہ خور ساتھی .ایڈم تھا جو اس پروگرام کی فلم بندی کرنے لیے وہاں موجود تھا۔

آموس نے اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہا: ’وہ قریب سے قریب تر سیدھے ہماری طرف آتے گئے۔ میں نے ایڈم کی طرف دیکھا اور منہ سے ریگولیٹر نکالا اور پھر میں نے مسکرا کر ریگولیٹر کو لگایا اورنیچے چلا گیا۔‘

’وہ (قطبی ریچھ) ہمارے سر کے اوپر آ گیا۔ اس کی تصویر لینے کے لیے میں چت ہو کر تیرنے لگا۔‘

آموس اپنے کیمرے کے ساتھ

،تصویر کا ذریعہAmos Nachoum

،تصویر کا کیپشن

جب آموس قطب شمالی میں ریچھوں کی تصاویر لے رہے تھے تو اسرائیل میں ان کے والد گزر گئے

انھوں نے جو تصویر کھینچی تھی وہ ایک ریچھ کا یک رخی خاکہ بھر تھا لہذا انھوں نے اس شاٹ کا انتظار کیا جس میں ریچھ انھیں دیکھتا ہوا نظر آ رہا تھا۔

’ابتدائی طور پر ماں ریچھ پانی کے اوپر تیر رہی تھی۔ پھر اس نے اپنا سر پانی کی طرف نیچے کیا اور پھر ٹکا ٹک میں اس کی جتنی تصویر لے سکتا تھا میں نے لی۔‘

میرا ہیرو

جب آموس قطبی ریچھ کی تصویریں لے رہے تھے اور کیمرے کا فوکس ان پر کر رہے تھے اس وقت دستاویزی فلم بنانے والے ان کے والد سے اسرائیل میں بات کر رہے تھے جو بستر سے لگ چکے تھے۔

انھوں نے آموس کو ’میرا اچھا لڑکا، میرا پاگل بیٹا، اور میرا ہیرو‘ جیسے القاب سے یاد کیا۔

آموس

،تصویر کا ذریعہAmos Nachoum

،تصویر کا کیپشن

آموس نے جنوری سنہ 2021 میں اپنا 70واں یوم پیدائش منایا

آموس کا کہنا ہے کہ انھوں اپنی زیادہ تر بالغ زندگی کے دوران اپنے والد سے بمشکل ہی بات کی تھی۔

’میں دنگ رہ گیا۔ مجھے اس کے سمجھنے میں ایک وقت لگا کہ ان کے منہ سے میرے لیے کیا نکلا ہے اور وہ میرے بارے میں کیا سوچتے تھے۔‘

جب تک آموس اسرائیل واپس آتے ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔

لیکن واپسی پر انھوں نے ان کے قبر پر حاضری دی اپنے والد کی قبر پر رکھنے کے لیے وہ قطبی ریچھ کی فریم کردہ فوٹو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

’میں نے وہ حاصل کر لیا ہے جس کا انھیں گمان نہیں تھا کہ میں حاصل کر سکوں گا۔‘

لیکن اس کے ساتھ مشہور فوٹو گرافر نے یہ بھی کہا: ’انھوں نے مجھے چیلنج کیا تا کہ میں بہتر سے بہتر بن سکوں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.