ممتاز لیڈز: لارڈ نذیر کی ٹویٹ کے بعد ریستوراں کے انڈین، پاکستانی یا کشمیری ہونے پر بحث
- عارف شمیم
- بی بی سی اردو، لندن
چند روز قبل کرسمس کے موقع پر برطانیہ کے شہر لیڈز میں ایک ریستوراں نے سینکڑوں ضرورت مند افراد میں مفت کھانا تقسیم کیا۔ لیکن یہ کوئی ایسا کام نہیں تھا جو ریستوراں پہلی مرتبہ کر رہا تھا، ایسا وہ سال میں کئی مرتبہ مختلف مواقع پہ کرتے ہیں۔ لیکن پھر ایسا ہوا جو ریستوراں کے مینیو پر بھی نہیں تھا۔
ہوا یوں کہ جب بی بی سی نیوز پر اس کے متعلق خبر چلی کہ اس کے لیڈز کے ڈاک پر واقع ریستوراں ممتاز لیڈز میں شیفز نے 12 سو سے زیادہ کھانے پیک کر کے مفت تقسیم کیے تو اس خبر کی سرخی تھی: ’انڈین ریستوراں نے سینکڑوں کھانے تقسیم کیے‘۔ اس کے بعد برطانیہ کے دار الامرا کے سابق رکن اور مشہور سماجی شخصیت لارڈ نذیر احمد نے فوراً ٹویٹ کیا کہ ’ممتاز ریستوراں کے مالک پاکستانی کشمیری ہیں، انڈین نہیں۔‘ ان کے ٹویٹ کا آنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ ممتاز لیڈز انڈین ریستوراں ہے یا پاکستانی۔
کسی نے ممتاز خاندان کے شجرہ پر بات کی تو کسی نے یہ سمجھایا کہ ’یہاں جنوبی ایشیائی کھانے کو انڈین کھانا ہی کہا جاتا ہے‘، کسی نے ممتاز لیڈز کی ویب سائٹ کا حوالہ دیا کہ انھوں نے خود ہی انڈین ریستوراں لکھا ہوا ہے تو کسی نے کہا کہ ’یہ غلطی جان بوجھ کر کی گئی ہے‘ اور یہ ’پاکستانی بھی نہیں بلکہ کشمیری ریستوراں‘ ہے۔
بی بی سی اردو نے ممتاز لیڈز کے بزنس اینڈ کسٹمر ریلشنز مینیجر اسد عارف سے رابطہ کیا کہ ان کے ایک خیراتی کام پر یہ کیسی بحث چھڑ گئی ہے اور وہ اس پر کیا کہنا چاہتے ہیں۔ ان کا جواب تھا: ’ہم ایک ریستوراں ہیں جو تمام پس منظر کے لوگوں کو کھانا فراہم کرتا ہے۔ ہم نے ایک عام خیراتی کام کیا جسے ہم سال میں کئی بار کرتے ہیں اور اسے میڈیا نے بھی اٹھایا۔ بات چیت وہیں رک جانی چاہیے تھی۔
’ہمیں کئی تبصرے پڑھ کر بہت تکلیف ہوئی ہے۔ ہمارا فلاحی کام سیاسی کیسے ہو گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ انھیں بہت دکھ ہوا ہے کہ ’ایک نیک خیراتی کام کو جو ہم بطور مسلمان بھی کرتے ہیں اس طرح کی شہرت ملی کہ لوگ عمل کو بھول کر شہریت پر بات کرنے لگے۔‘
ممتاز لیڈز کے مطابق انھیں فٹبالر مارکوس راشفورڈ کے 10 پاؤنڈ کے کرسمس ڈِنر سے بہت تحریک ملی ہے جو انھوں نے شیف ٹام کیرج کے ساتھ مل کر شروع کیا تھا۔
کرسمس کے موقع پر پلاؤ، بریانی، چکن جلفریزی، رائتہ، اور پکوڑوں پر مشتمل کھانے کے بکسوں کے لیے لوگ ریستوراں کے سامنے لمبی قطار میں کھڑے تھے۔
اسد عارف نے کہا کہ وائرس کی نئی قسم کی وجہ سے کرسمس پر بہت سی بکنگز منسوخ ہوئیں اور اس مہینے ریستوراں کو بزنس میں کم از کم 60 سے 70 فیصد نقصان ہوا ہے۔
’ہم ایک ریستوراں کے کاروبار کے طور پر، ایک بہت ہی مشکل مالی حالت میں ہیں کیونکہ مارچ 2020 سے کووڈ نے واقعی ہمیں ہلا کے رکھ دیا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ہم چند مہینوں میں کہاں ہوں گے۔ ہمیں اپنی تمام کوششوں کو کاروبار پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے ’غیر ریستوراں‘ مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس وقت ہے اور نہ توانائی۔ اس لیے برائے مہربانی ’وراثت‘ سے متعلق سوالات کے جوابات دینے سے ہمیں معاف رکھیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے مزید کہا کہ اگر واقعی اس معاملے پر توجہ دینا ضروری ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ’ہم ایک ایسا ریستوراں ہیں جو جنوبی ایشیائی اور دیگر اقسام کے کھانے پیش کرتے ہیں‘۔
’لفظ ’انڈین‘ کا استعمال ہماری ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی، کشمیری اور جنوبی ایشیائی الفاظ بھی موجود ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اس بزنس میں یہ جدید طرز عمل ہے کہ اکثر ’انڈین‘ کو کری کے مترادف یا ہم معنی استعمال کیا جاتا ہے۔
’یہ صرف زیادہ SEO (سرچ انجن آپٹمائزیشن) یا تجارتی طور پر ویب سائٹس پر زیادہ نظر آنے کا عمل ہے۔ ہم اپنی ویب سائٹ پر وہ تمام الفاظ شامل کرتے ہیں جو SEO کو بڑھاتے ہیں۔ ‘
انھوں نے کہا کہ انھیں کسی بھی ملک/ثقافت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ’بحیثیت مسلمان ہماری شناخت کسی بھی قومیت یا حب الوطنی کے عنصر پر غالب ہے۔۔۔ ہماری توجہ خوراک اور خدمت پر ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تاہم ایسا کرنے کے قابل ہونا اور کمیونٹی کو واپس دینا ہمیشہ ہمیں توانا کرتا ہے اور طاقت دیتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم اب بھی مراعات یافتہ ہیں اور ہمارے پاس جو کچھ ہے اس کے لیے ہمیں بہت شکر گزار ہونا چاہیے۔‘
ممتاز لیڈز کی اپنی ویب سائٹ پر اس کا ایک مختصر سا تعارف بھی ملتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ممتاز ریستوراں کی بنیاد 1979 میں ممتاز فیملی کی فرزند بیگم نے بریڈ فورڈ میں گریٹ ہارٹن روڈ پر ایک چھوٹی سی دکان سے رکھی تھی اور جلد ہی وہ اپنے مستند کشمیری کھانوں کے لیے مشہور ہو گئیں۔
Comments are closed.