ریحام خان: زلفی بخاری کو عمران خان کی سابق اہلیہ کے خلاف ہتک عزت کے کیس میں کامیابی، ریحام خان کی معافی پر سوشل میڈیا پر بحث
پاکستانی نژاد برطانوی براڈکاسٹر اور وزیر اعظم عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے تسلیم کیا ہے کہ انھوں نے وزیراعظم پاکستان کے سابق معاونِ خصوصی زلفی بخاری کے خلاف ماضی میں متعدد مرتبہ کرپشن اور دیگر انتظامی معاملات سے متعلق غلط اور جھوٹے الزامات لگائے تھے۔
ٹوئٹر، فیس بک اور یوٹیوب پر انگلش اور اردو میں جاری کردہ اپنے ویڈیو بیان میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے زلفی بخاری کی جانب سے خود پر عائد مقدمے میں ہتک عزت اور قانونی اخراجات کی مد میں رقم ادا کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
زلفی بخاری نے اسے سچائی کی جیت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایک دن آئے جب پاکستان میں بھی ایسا ہی قانون ہو گا تاکہ جھوٹ پھیلانے والے میڈیا پرسنز کا احتساب ہو سکے۔
خیال رہے کہ زلفی بخاری نے رواں سال کے اوائل میں ریحام خان کے خلاف ہتک عزت کا کیس کیا تھا اور اب تصفیے کی صورت میں ریحام خان نے لگائے گئے تمام تر الزامات کو غلط اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔
معاملہ کیا ہے؟
ریحام خان نے اپنے ویڈیو بیان بتایا کہ انھوں نے دسمبر 2019 میں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ زلفی بخاری وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ مل کر ایک کرپٹ پلان کے تحت نیویارک میں واقع روزویلٹ ہوٹل کو کم قیمت پر فروخت یا حاصل کرنا چاہتے تھے جبکہ یہ الزام بعد ازاں عدالت میں جھوٹ پر مبنی ثابت ہوا۔
ریحام نے کہا کہ وہ اب سمجھتی ہیں کہ زلفی بخاری ایسے کسی کرپٹ پلان میں شامل نہیں تھے۔
ریحام خان نے اپنے دعوؤں میں یہ بھی کہا تھا کہ زلفی بخادی تھوڑے پیسوں کے عوض دھوکہ دہی اور اقربا پروری کے مرتکب ہوتے ہوئے روزویلٹ جیسا ایک قیمتی ملکی اثاثہ بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اپنے ایک دوسرے الزام کو واپس لیتے ہوئے ریحام خان نے کہا کہ زلفی بخاری نے اپنی دولت محنت کے ذریعے کمائی ہے نہ کہ کسی غیر قانونی ذریعے سے۔ جبکہ انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ صحافیوں کے خلاف نوٹس بھیجے جانے میں زلفی بخاری کا کوئی کردار نہیں تھا۔
انھوں نے اپنی جانب سے کیے گئے کچھ ری ٹویٹس پر بھی معافی مانگی۔
ان میں سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ زلفی بخاری نے کورونا انتظامات کے حوالے سے اپنی نااہلی کی وجہ سے لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی تھیں۔ مگر اب ریحام کا کہنا ہے کہ زلفی بخاری پاکستان میں کورونا سے متعلق انتظامات میں شامل نہیں تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ان چیزوں کی اشاعت پر زلفی بخاری کو تکلیف، پریشانی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جس پر وہ ان سے غیر مشروط معافی مانگ رہی ہیں۔
’بیرون ملک آپ کسی پر بغیر ثبوت الزام عائد نہیں کر سکتے‘
ریحام خان کی جانب سے معافی مانگنے اور اسے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شائع کرنے کے بعد ایک بڑی تعداد میں لوگ اس پر اپنا ردعمل دے رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ’برطانوی عدالتوں نے ریحام خان پر زلفی بخاری پر جھوٹےالزامات پر ہرجانے اور معافی مانگنے کا حکم دیا، اس طرح کا قانونی نظام پاکستان میں لانے کی کوشش کو آزادی اظہار کے خلاف قرار دے کر میڈیا مالکان مہم شروع کر دیتے ہیں۔۔۔‘
شفا یوسفزئی کہتی ہیں کہ ایسا ہونا صرف تب ممکن ہے جب آپ کا انصاف کا نظام مضبوط ہو۔ انھوں نے کہا ہے کہ یہ ریحام کے لیے ’باعث شرمندگی‘ ہے۔
اسی دوران بعض صارفین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کے لیے سبق ہے کہ آئندہ ٹویٹ یا ری ٹویٹ کرنے سے قبل احتیاط برتیں اور جھوٹ پر مبنی کسی بیان یا الزام کو شیئر نہ کریں۔
عائشہ خان لکھتی ہیں کہ ریحام اب شاید آئندہ الزام لگانے سے پرہیز کریں گی۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ کاش پاکستان میں بھی ایسا عدالتی نظام ہوتا۔
یہ بھی پڑھیے
ایک صارف کا کہنا تھا کہ وہ حیران ہیں کہ ریحام جیسی سینیئر صحافی نے بغیر ثبوت کے محض ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے الزامات لگائے۔
خیال رہے کہ نومبر 2019 میں پاکستان کے نجی ٹی وی چینل دنیا ٹی وی نے ریحام خان سے ان کے خلاف نشر کیے گئے الزامات پر معافی مانگ لی تھی۔
دنیا ٹی وی پر پانچ جون 2018 کو نشر کیے جانے والے پروگرام میں الزام عائد گیا تھا کہ ‘ریحام خان نے عمران خان کے سیاسی مخالف اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے بھاری رقم کے عوض کتاب لکھی، جس میں عمران خان کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی۔‘
ان الزامات کے بعد ریحام خان نے دنیا ٹی وی کی انتظامیہ کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
دنیا نیوز کے جس پروگرام میں یہ الزامات عائد کیے گئے تھے وہ پروگرام برطانیہ میں بھی نشر ہوا تھا جس کی وجہ سے ریحام خان نے لندن کی ہی ایک عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر رکھا تھا۔
خیال رہے کہ 2018 میں ریحام خان کی کتاب پر تنازع اس وقت کھڑا ہوا تھا جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ اس میں ان کے علاوہ عمران خان اور ان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ گولڈ سمتھ، کرکٹر وسیم اکرم اور دیگر کئی افراد سے متعلق دعوے کیے گئے تھے۔
Comments are closed.