ریاض میں آج میسی بمقابلہ رونالڈو: کیا مشرق وسطیٰ بالخصوص سعودی عرب عالمی کھیلوں کا نیا مرکز ہے؟
میسی اور رونالڈو کے درمیان ریاض میں فٹبال میچ اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی فٹبال میں خلیجی ممالک کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے
فرانسیسی کلب ’پی ایس جی‘ اور سعودی ’آل سٹار الیون‘ کے درمیان 19 جنوری (آج) کو ایک دوستانہ میچ ہونے جا رہا ہے جس میں لیونل میسی اور کرسٹیانو رونالڈو مدِمقابل ہوں گے۔
سعودی عرب کے شہر ریاض میں ارجنٹائن اور پرتگال سے تعلق رکھنے والے دو بے مثال کھلاڑیوں کے درمیان آج ہونے والا یہ میچ ثابت کرتا ہے کہ خلیجی ممالک خاص کر سعودی عرب کا فٹبال میں اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔
سنہ 2011 سے پی ایس جی کی ملکیت قطری سرمایہ کاروں کے پاس ہے جن کا تعلق ملک کے شاہی خاندان سے بتایا جاتا ہے۔ اسی سرمایہ کاری کی وجہ سے پی ایس جی کے پاس میسی، کلیان ایمابپے اور نیمار جیسے عالمی سپر سٹارز رہے ہیں۔
اُدھر رونالڈو سعودی آل سٹار الیون کا حصہ ہوں گے اور اس کی وجہ سعودی کلب النصر کے ساتھ ان کا ڈھائی سال کا معاہدہ ہے جس سے وہ 20 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی آمدن کمائیں گے۔
ایک فین نے نیلامی میں اس دوستانہ میچ کا ٹکٹ 26 لاکھ ڈالر میں خریدا ہے۔ یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ عالمی فٹبال کا مرکز یورپ اور لاطینی امریکہ نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ بنتا جا رہا ہے۔
ماضی میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی بااثر شخصیات بیرون ملک پراپرٹی اور کاروبار جیسے روایتی اثاثوں میں سرمایہ کاری کرتی تھیں۔ مگر اب ان کی توجہ کھیلوں کی صنعت پر ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ’سافٹ پاور‘ کے حصول کی سفارتکاری کے ساتھ ساتھ معیشت میں تنوع لانے کا طریقہ ہے۔
لندن میں یورپ کی سب سے اونچی عمارتوں میں سے ایک ’شارڈ‘ کی ملکیت قطری شاہی خاندان کے پاس ہے
یورپی فٹبال میں خلیجی ممالک کا اثر و رسوخ
پی ایس جی وہ واحد یورپی کلب نہیں جسے خلیجی ممالک بلا واسطہ یا بلواسطہ کنٹرول کرتے ہیں۔
سنہ 2008 میں مانچسٹر سٹی وہ پہلی بڑی ٹیم تھی جسے خریدا گیا۔ اماراتی ارب پتی شخصیت شیخ منصور بن زاید النھیان نے انگلش پریمیئر لیگ کے اس کلب کو خریدا۔ وہ شاہی خاندان کے کافی قریب سمجھے جاتے ہیں۔
گذشتہ برسوں کے دوران ایک کے بعد ایک بڑے انگلش کلبز میں سرمایہ کاری کی جانے لگی۔ جیسے نیو کاسل یونائیٹڈ کو سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ نے خرید لیا۔ یوں متنازع ادائیگیوں کی فہرست لمبی ہوتی چلی گئی۔
برطانیہ میں اس اقدام پر کافی شور مچا کیونکہ اس وقت صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد انصاف کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
وہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے بڑے ناقد تھے۔ اکتوبر 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے کے دورے پر انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
مانچسٹر سٹی میں اماراتی سرمایہ کاری نے اسے معمولی کلب سے پریمیئر لیگ چیمپیئن بنا دیا
مغربی انٹیلیجنس ادارے سمجھتے ہیں کہ سعودی ولی عہد نے ہی ان کے قتل کا حکم دیا تھا تاہم وہ اس الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
کلب کی منتقلی صرف اسی صورت منظور کی گئی تھی جب قانونی اعتبار سے یہ یقینی بنایا گیا کہ سعودی ریاست کلب کو کنٹرول نہیں کرے گی۔
بڑی ٹیموں کی ملکیت اور ان میں سرمایہ کاری بڑھانے کے علاوہ خلیجی ممالک اہم میچوں کی میزبانی اور سپانسرشپ (اشتہاروں) کے بڑے معاہدوں میں بھی نظروں میں آئے۔
سعودی عرب نے یورپی فٹبال میچوں کے خصوصی ایڈیشنز کو فروغ دینے کے لیے سرمایہ کاری کی ہے۔ جیسے اطالوی اور ہسپانوی سپر کپس جو کہ دونوں ریاض میں کھیلے گئے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کی ایئر لائن ’ایمیریٹس‘ نے ریال میڈرڈ اور اے سی میلان جیسے بڑے کلبوں کے ساتھ لاکھوں ڈالروں کے سپانسرشپ معاہدے طے کیے ہیں۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ قطر نے فیفا ورلڈ کپ کی کامیاب میزبانی کر کے خلیجی ممالک کے لیے ایک نئی مثال قائم کی ہے
کھیلوں کی عالمی تقاریب کی میزبانی، سپانسرشپ معاہدے
قطر نے 2022 کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کر کے خلیجی ممالک کی جانب سے کھیلوں کی بڑی تقاریب کرانے کی عمدہ مثال قائم کی۔ مگر یہ کوئی واحد مثال نہیں ہو گی۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین 2023 میں ایف ون گرینڈ پکس کی مشترکہ میزبانی کریں گے۔
سعودی عرب نے باکسنگ کے ہائی پروفائل ایونٹ اور ڈبلیو ڈبلیو ای ریسلنگ کی میزبانی کی ہے۔ ایسی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ ریسلنگ سپورٹس انٹرٹینمنٹ (یعنی ڈبلیو ڈبلیو ای) کا برانڈ ایک سعودی بااثر شخصیت کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ بات ابھی قیاس آرائیوں تک ہی ہے۔
قطر کی جانب سے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کو کئی حلقوں نے خلیجی ممالک کی بڑی کامیابی قرار دیا۔ اور اس سے مستقبل میں مزید کھیلوں کی تقاریب یہیں ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق سعودی عرب مصر اور یونان کے ہمراہ 2030 کے فیفا ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی پر غور کر رہا ہے۔ جبکہ کھیلوں کے معاملات پر نظر رکھنے والے حلقوں کا خیال ہے کہ قطری دارالحکومت دوحہ 2036 کے اولمپکس اور پیرالمپکس کی میزبانی کر سکتا ہے۔
یہ شہر دو بار ماضی میں اولمپکس کی میزبانی کا امیدوار رہ چکا ہے۔ فیفا ورلڈ کپ کے دوران دوحہ کا معیاری انفراسٹرکچر اور آمد و رفت کا نیٹ ورک مؤثر ثابت ہوا اور اب یوں دوحہ پہلے سے بہتر امیدوار کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
سعودی عرب کے زیر تعمیر شہر نیوم میں صحرا کے بیچ و بیچ ونٹر سپورٹس ریزارٹ بنایا جائے گا
خلیجی ممالک کی نظریں سرمائی اولمپکس پر بھی ہیں۔ گذشتہ اکتوبر سعودی عرب نے 2029 کی ونٹر ایشین گیمز کی میزبانی کا حق حاصل کیا۔
شیڈول کے تحت یہ نیوم میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ سعودی عرب کا وہ نیا شہر ہے جسے اطلاعات کے مطابق 500 ارب ڈالر میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ خیال ہے کہ اس شہر کی تعمیر 2026 تک مکمل ہو جائے گی جس میں صحرا کے بیچ و بیچ ایک سکی ریزارٹ بنائے جانے کی بھی توقع کی جا رہی ہے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین میں تیل اور گیس کی صنعتوں نے عالمی کھیلوں کے حوالے سے بھی ان ملکوں کو مالی اعتباد سے طاقتور بنایا ہے۔ مگر بعض حلقوں نے اس کی مخالفت بھی کی ہے۔
سنہ 2022 میں ورلڈ کپ کی میزبانی سے قبل قطر اس وقت تنقید کی زد میں آیا جب وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں زیرِ بحث آئیں، جیسے ملازمین اور ہم جنس پرستوں کے حقوق۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ان کے ملک پر بے جا تنقید کی جا رہی ہے۔ ’جب سے ہمیں ورلڈ کپ کی میزبانی کا اعزاز ملا، قطر کے خلاف ایسی مہم شروع کی گئی جس کا سامنا آج تک کسی میزبان ملک نے نہیں کیا۔‘
جہاں ایک طرف عالمی کھیلوں میں خلیجی ممالک کے بڑھتے اثر و رسوخ کی مخالفت شاید جاری رہے گی وہیں دوسری طرف اس سے حاصل ہونے والے بڑی پیداوار بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔
Comments are closed.