رچرڈ اولسن: ہیرے، سفارتکاری اور رومانوی زندگی۔۔۔ سابق امریکی سفیر کے زوال کی کہانی
- مصنف, ہولی ہونڈرچ
- عہدہ, بی بی سی نیوز، واشنگٹن
سنہ 2012 میں جب رچرڈ اولسن پاکستان میں امریکی سفیر کے طور پر پاکستان آئے تو میزبان ملک کی جانب سے ان کا پُرجوش استقبال نہیں کیا گیا کیونکہ پاکستان ایک برس قبل ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو مارنے کے لیے اپنی سرزمین پر امریکی حملے پر ناراض تھا۔
رچرڈ اولسن نے مہارت سے صورتحال پر قابو پایا اور ان کا امریکہ سے باہر 30 برس سے زائد کا سفارتکاری کا تجربہ ان کے کام آ گیا۔
جب وہ چار سال بعد سنہ 2016 میں ریٹائر ہوئے تو اس وقت امریکہ کے وزیرخارجہ جان کیری نے یہ کہا تھا کہ رچرڈ اولسن ’ہمارے سب سے ممتاز سفارت کاروں میں سے ایک‘ نے امریکی سفارت کاری پر ’دیرپا اثرات‘ مرتب کیے ہیں۔
لیکن پسِ پردہ رچرڈ اولسن کی اسلام آباد آمد کے بعد کا عرصہ سکینڈل سے بھرپور ہے۔ ایک امریکی عدالت کی دستاویزات کے مطابق رچرڈ اولسن کو غیرازدواجی تعلقات، نہ ظاہر کیے جانے والے ہیروں کے تحائف، جھوٹ کا سہارا لینے اور غیرقانونی ’لابنگ‘ جیسے الزامات کا سامنا ہے۔
گذشتہ برس اولسن نے ’ایتھکس پیپر ورک‘ میں جھوٹ بولنے اور وفاقی سروس سے ریٹائر ہونے کے ایک سال کے اندر قطر کے لیے لابی کر کے نام نہاد ’روالونگ ڈور‘ جیسے قوانین کی خلاف ورزی کا اعتراف کیا۔
جمعے کے روز عدالت نے انھیں تین سال ’پروبیشن‘ اور 93,400 ڈالر جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
عدالت میں موجود رچرڈ اولسن نے سزا سنانے سے قبل جج جی مائیکل ہاروی سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’میں نے اپنی غلطیوں کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ میں سماجی طور پر الگ تھلگ ہوں اور مجھے پیشہ ورانہ طور پر کہیں کا نہیں رہ گیا۔ میں نے اپنی ساکھ کھو دی ہے اور میں اپنی جمع پونجی سے محروم ہو گیا ہوں۔‘
عدالت کے باہر انھوں نے بی بی سی سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔
رچرڈ اولسن کی بے توقیری کے ساتھ ہی ان کا 34 برس کا ’شاندار‘ قرار دیا جانے والا کریئر بھی یوں زوال پر اختتام پذیر ہوا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے بہترین امریکی سفارتکاری کے دعوؤں کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔
امریکی دفتر خارجہ نے اس مقدمے پر کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
وینڈربِلٹ یونیورسٹی میں تاریخ اور سیاست کے پروفیسر تھامس ایلن شوارٹز کا کہنا ہے کہ ’اگر کچھ بھی ہو تو ’فارن سروس‘ یعنی غیرملکی سفارتکاری کی شہرت نرمی سے ہی تعبیر کی جاتی ہے۔عام طور پر ’بوریت ہی اس کا عین معیار ہوتا ہے۔‘
تاہم ان کے مطابق ’یہ معاملہ حیران کن ہے۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ رچرڈ اولسن نے انتہائی خطرہ مول لیا ہے۔‘
درحقیقت اسی وقت رچرڈ اولسن پاکستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہے تھے اور یہ ایک پیچیدہ ’اسائنمنٹ‘ تھی جس میں طالبان حکام کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں بھی شامل تھیں۔
عدالتی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ رچرڈ اولسن کی رومانوی زندگی انھیں بلیک میل ہونے کے لیے بھی راستہ ہموار کر رہی تھی۔
سنہ 2012 میں رچرڈ اولسن کی اسلام آباد آمد کے بعد پاکستان میں کام کرنے والی ایک برطانوی صحافی کے ساتھ (رومانوی) تعلقات کا بھی آغاز ہوا۔
رچرڈ اولسن اور صحافی مونا حبیب میں سنہ 2014 تک رومانوی تعلق رہا۔ پھر مونا حبیب کو یہ پتا چلا کہ اولسن نے امریکی محکمہ خارجہ کی ایک اور سفارتکار سے شادی کر رکھی ہے اور وہ مزید خواتین کو بھی ڈیٹ کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ رچرڈ اولسن کی اہلیہ اس وقت لیبیا میں سفیر کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔
رچرڈ اولسن کے وکلا نے عدالت میں جمع کروائی گئی اپنی دستاویزات، جن کی اشاعت پہلے واشنگٹن پوسٹ میں ہوئی، لکھا کہ ’مونا حبیب کا خیال تھا کہ رچرڈ اولسن کے صرف ان کے ساتھ ہی رومانوی تعلقات ہیں جبکہ رچرڈ اولسن ایسا نہیں سمجھتے تھے۔‘
رچرڈ اولسن نے حکام کو بتایا کہ انھوں نے سی آئی اے کے اسلام آباد سٹیشن چیف کو مونا حبیب کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں آگاہ کیا تھا لیکن عدالتی ریکارڈ کے مطابق رچرڈ اولسن نے امریکی سفارتی سکیورٹی حکام تک یہ معلومات نہیں پہنچائیں۔
محکمہ خارجہ کے انٹیلی جنس قوانین کے مطابق ان کے لیے ایسا کرنا لازم تھا۔ رچرڈ اولسن اور مونا حبیب کے درمیان سنہ 2015 کے اوائل میں دوبارہ رابطہ بحال ہوا۔
مونا حبیب کا امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی کے جرنلزم پروگرام میں داخلہ ہوا لیکن وہ تقریباً ایک لاکھ ڈالر داخلہ فیس ادا کرنے کیا سکت نہیں رکھتی تھیں۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق رچرڈ اولسن نے مونا حبیب کو پاکستانی نژاد امریکی تاجر عماد زبیری سے ملوانے کی پیشکش کی۔ عماد زبیری کے امریکی حکام سے بڑے قریبی تعلقات تھے۔ بعد میں عماد زبیری نے 2019 میں امریکی سیاست دانوں کے لیے اپنے فنڈ ریزنگ کے سلسلے میں جعلی ریکارڈ اور ٹیکس چوری جیسے جرائم کے ارتکاب کا اعتراف کیا تھا اور انھیں سزا بھی سنائی گئی۔
رچرڈ اولسن کی درخواست پر عماد زبیری نے مونا حبیب کو کولمبیا کی ٹیوشن فیس اداد کرنے میں مدد کے لیے 25 ہزار ڈالر ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
جمعہ کو کمرہ عدالت کی اگلی قطار میں بیٹھی ہوئیں مونا حبیب سپاٹ چہرے کے ساتھ سامنے دیکھ رہی تھیں جہاں وکلا رچرڈ اولسن کے ساتھ ان کے تعلقات سے متعلق بحث کر رہے تھے۔ بات یہ ہو رہی تھی کہ آیا کولمبیا یونیورسٹی میں داخلے کے وقت وہ رچرڈ اولسن کی ’رومانوی تعلق رکھنے والی دوست‘، ’خفیہ ساتھی‘ یا ’گرل فرینڈ‘ تھیں۔
عدالتی دستاویزات میں رچرڈ اولسن کے وکلا نے اس بات پر اصرار کیا کہ سفیر نے مونا حبیب کا عماد زبیری سے محض تعارف کروایا تھا اور اس میں انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور نہ ہی اس وقت ان کے مونا حبیب کے ساتھ رومانوی تعلقات تھے۔
اس کے باوجود ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ رچرڈ اولسن کا یہ معاملہ تشویش کا باعث بنا کیونکہ اس وقت پاکستان اور امریکہ کے سفارتی تعلقات کمزور تھے۔
پروفیسر تھامس ایلن شوارٹز کے مطابق ’امریکہ اور پاکستان کے ساتھ حالات کے تناظر میں بلیک میلنگ کے بہت زیادہ امکانات موجود تھے۔ ان کے مطابق ’میں ایسی صورتحال میں بہت سنگین قسم کے نتائج کا تصور کر سکتا ہوں۔‘
رچرڈ اولسن اور مونا حبیب نے بعد میں اپنے تعلقات کو پھر سے استوار کیا اور سنہ 2019 میں انھوں نے شادی بھی کر لی۔ مونا حبیب نے بی بی سی سے بات کرنے سے انکار کیا ہے۔
سابق سفیر رچرڈ اولسن ایک اور خاتون یعنی اپنی ساس کی وجہ سے بھی مشکلات میں گھرے۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق جب رچرڈ اولسن دبئی میں امریکی قونصل خانے کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے تو وہاں کے حکمران نے ان کے دفتر میں ان کے لیے ایک قیمتی تحفہ بھیجا جو دراصل 60 ہزار ڈالر کی مالیت کے ہیرے اور زیورات تھے۔
اس وقت کے مروجہ معیارات اور قانون (فارن گفٹس اینڈ ڈیکوریشن ایکٹ) کے تحت رچرڈ اولسن کو 285 ڈالر سے زیادہ کے تحائف کی اطلاع دینے اور یا تو انھیں واپس کرنے یا وفاقی حکومت کو ’مارکیٹ ویلیو‘ کے مطابق معاوضہ دینا ضروری تھا۔
تاہم رچرڈ اولسن نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ انھوں نے بعد میں تفتیش کاروں کو بتایا کہ یہ ہیرے ان کی ساس کے لیے ایک تحفہ تھے، جو اپنے بچوں کی دیکھ بھال میں مدد کے لیے دبئی چلی گئی تھیں اور ان پر تحائف سے متعلق قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔
نومبر 2016 کے ایک خط میں رچرڈ اولسن نے محکمہ خارجہ کو لکھا کہ وہ اپنی ساس کو زیورات واپس کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے جیسا کہ محکمے نے درخواست کی تھی۔۔۔ اگر انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا تو ’میرے خیال میں وہ اسے ڈکیتی سمجھیں گی۔‘
امریکی دفتر خارجہ نے بالآخر کارروائی کیے بغیر اپنی تحقیقات بند کر دیں لیکن عدالتی دائرہ کار میں استغاثہ نے زیورات کو ’ایک بے حد اور واضح طور پر نامناسب تحفہ‘ قرار دیا اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ رچرڈ اولسن نے احتساب کے عمل سے بچنے کے لیے جھوٹ بولا۔
پروفیسر تھامس ایلن شوارٹز نے کہا کہ یہ الزام ’رومانوی تعلقات‘ کے معاملے سے کم سنگین معلوم ہوتا ہے حالانکہ یہ اب بھی ایک ’اخلاقی دیوالیے‘ کی نشاندہی کرتا ہے۔
رچرڈ اولسن پر ان دونوں معاملات، رومانوی تعلقات اور ہیروں کے تحائف، میں سے کسی ایک پر بھی فرد جرم نہیں عائد کی گئی۔
تاہم عدالتی کارروائی کے دوران استغاثہ نے ان دونوں معاملات کا بُرے طرز عمل اور ’غیر اخلاقی تحائف‘ کے ثبوت کے طور پر حوالہ دیا۔ انھوں نے رچرڈ اولسن کے لیے سخت سزا سنانے کی بھی استدعا کی۔
جمعہ کے روز پراسیکیوٹر ایون ٹُرجن نے کہا کہ اولسن احتساب کے عمل سے پہلو تہی کرتے رہے اور انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے جرائم محض ’پیپرورک ایررز‘ یعنی معمولی ’کاغذی غلطیاں‘ تھیں۔
ایون ٹرجن نے کہا کہ ’جب ملزم مسلسل اس بات سے انکاری ہے کہ ان کا رویہ غلط تھا تو ایسے میں ’پروبیشن‘ کی سزا مناسب نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر لوگوں کو ایسے کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے جیسے ان پر قوانین لاگو نہیں ہوتے ہیں، تو وہ کریں گے۔‘
رچرڈ اولسن جیل سے تو ضرور بچ گئے مگر بدعنوانی کے دو الزامات میں اعتراف جرم کے بعد اب انھیں چھ ماہ کی قید کی سزا دی گئی۔
رچرڈ اولسن نے پہلا اعتراف یہ کیا کہ انھوں نے تاجر عماد زبیری سے فرسٹ کلاس ’راؤنڈ ٹرپ‘ ٹکٹ کے حصول کے متعلق جھوٹ بولا حالانکہ وہ اس وقت فیڈرل گورنمنٹ کے ملازم تھے۔ یہ ’ٹِرپ‘ امریکی ریاست نیو میکسیکو سے لندن تک تھا، جہاں رچرڈ اولسن نے بحرین کے تاجر، جن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی، کی کمپنی میں ملازمت کے لیے انٹرویو دینا تھا۔
بحرین کے اس بزنس مین نے رچرڈ اولسن کو تین لاکھ ڈالر کے سالانہ کنٹریکٹ پر اپنی کمپنی میں ملازمت دے دی۔ اس انٹرویو کے جہاز کے ٹکٹ اور لگژری ہوٹل کے اخراجات کے تقریباً 20 ہزار ڈالر عماد زبیری نے ادا کیے۔
رچرڈ اولسن نے نومبر 2016 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے ایک سال کے اندر قطری حکومت کو ’ایڈ اینڈ ایڈوائس‘ فراہم کرنے کا بھی اعتراف کیا۔ یوں انھوں نے ان وفاقی حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی کی جن کے تحت سرکاری ملازم کے لیے ایسی ملازمت اختیار کرنے سے قبل ریٹائرمنٹ کے بعد ایک سال کا وقفہ ضروری ہے۔
رچرڈ اولسن نے جمعے کے روز اپنے بیان میں کہا کہ ’میں نے خلاف قانون قدم اٹھایا اور میں اپنے اس فیصلے میں کی جانے والی غلطی کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔
’یہ ایک غلطی تھی، یہ جان بوجھ کر نہیں کی گئی۔ لیکن یہ ایک غلطی تھی اور اس کے بہت بڑے نتائج نکلے ہیں۔‘
Comments are closed.