روہنگیا پناہ گزینوں کا میانمار واپسی سے انکار: ’بہتر ہے ہمیں مار کر ہماری لاشیں واپس بھیج دیں‘
بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان 2017 میں پہلی بار پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا معاہدہ ہوا تھا لیکن انھیں واپس بھیجنے کی دو کوششیں ناکام ہو گئیں
- مصنف, سوامی ناتھن نٹراجن، معظم حسین
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
میانمار اور بنگلہ دیش روہنگیا پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے کی تیسری کوشش کر رہے ہیں۔
یہ ایک متنازع سکیم ہے جس میں بنگلہ دیش میں رہنے والے پناہ گزینوں کو واپس جانے کے لیے فی خاندان دو ہزار ڈالر کی پیشکش کی جا رہی ہے۔
2017 میں فوجی کریک ڈاؤن کے بعد تقریباً آٹھ لاکھ مسلمان روہنگیا پناہ گزین میانمار سے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش چلے گئے تھے۔
اقوام متحدہ کی ایک عالمی عدالت میں بدھ مت اکثریتی ملک میانمار میں ریاست کی جانب سے نسل کشی کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
رخائن میں کڑا پہرہ
مئی کے اوائل میں، انیس (اصل نام نہیں) کو میانمار کی رخائن ریاست کے علاقے ناگپورہ میں نئی رہائشی سہولیات کے دورے پر لے جایا گیا۔
20 دیگر روہنگیا مسلمانوں کے ہمراہ اس دورے پر لے جائے جانے والے انیس کے مطابق ’ان کیمپوں کے ارد گرد باڑ لگی ہوئی تھی اور ان کی حفاظت سپاہی کر رہے تھے۔
’مکانات میں کمرے بہت چھوٹے ہیں، غالباً آٹھ ضرب بارہ فٹ کا جس میں ایک دروازہ اور ایک یا دو کھڑکیاں ہیں۔ دروازے اتنے چھوٹے ہیں کہ ان میں داخل ہونے کے لیے آپ کو اپنا سر جھکانا پڑے گا۔‘
میانمار کی رخائن ریاست کے علاقے ناگپورہ میں نئی رہائشی سہولیات کے دورے کا منظر
لیکن میانمار میں موجود سہولیات ہی صرف وہ چیز نہیں جس کی وجہ سے انیس گھبرا رہے ہیں۔
انیس کہتے ہیں ’تجاویز کے تحت، ہم کبھی بھی جائیداد یا کاروبار کے مالک نہیں بن سکتے۔ ہم دوسرے لوگوں کی طرح حقوق چاہتے ہیں تاکہ میں اپنے بچوں کو سکول بھیج سکوں اور ہم کسی کی اجازت کے بغیر کسی بھی قصبے یا شہر میں جا سکیں‘۔
بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان 2017 میں پہلی بار پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا معاہدہ ہوا تھا لیکن انھیں واپس بھیجنے کی دو کوششیں ناکام ہو گئیں کیونکہ انھوں نے مکمل حقوق کے حصول تک واپس جانے سے انکار کر دیا۔
عام طور پر، اقوام متحدہ وطن واپسی کے ایسے منصوبوں کی نگرانی کرتا ہے لیکن یہ پروگرام میانمار اور بنگلہ دیش اپنے طور پر چلا رہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کے کمشنر محمد میزان الرحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ عمل رضاکارانہ ہے۔ ہمارا مقصد باعزت وطن واپسی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی کو زبردستی بےگھر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے۔ ہم اس کے بارے میں واضح کر چکے ہیں۔‘
اسی بارے میں:
لیکن انیس کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیشی حکام نے میانمار سے واپسی کے بعد ان کے گروپ پر دباؤ ڈالا کہ وہ وطن واپسی کی سکیم میں شمولیت اختیار کریں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرا موبائل فون بند ہے۔ میں آپ سے اپنے ایک بھائی کے فون سے بات کر رہا ہوں۔ ہم میں سے کوئی بھی جانے کو تیار نہیں ہے۔ ہم نے کہا، بہتر ہے کہ ہمیں مار کر ہماری لاشیں واپس بھیج دیں۔‘
کاکس بازار کے کیمپوں میں خوف تو ہے ہی لیکن تجسس بھی ہے۔
سلطان (اصل نام نہیں) نے دو ماہ قبل بنگلہ دیش کے شہر کاکس بازار میں میانمار کے ایک وفد سے ملاقات کی۔
ان کا سوال ہے کہ ’مجھے بتایا گیا کہ میرا نام ایک فہرست میں ہے۔ اتنے لوگوں میں سے میرا نامی ہی فہرست میں کیوں تھا؟
’مجھے بتایا گیا کہ پہلے وہ ہمیں ماؤنگڈو لے جائیں گے۔ وہاں انھوں نے 15 کیمپ بنائے ہیں جہاں ہمیں تین ماہ تک رہنا پڑے گا۔‘
سلطان کے خاندان کا تعلق ریاست رخائن میں ماؤنگڈو کے قریب واقع ایک گاؤں سے ہے۔ ان کے خاندان کی وہاں زمین اور جائیداد تھی لیکن کوئی نہیں جانتا کہ جب سے وہ وہاں سے گئے ہیں اس کا کیا ہوا ہے۔
ان کے پاس میانمار کے شہری ہونے کا ثبوت دینے کے لیے کوئی دستاویز بھی نہیں ہے۔
سلطان کے مطابق ’برمی وفد نے ہم سے بہت سے سوالات کیے۔ پھر انھوں نے میری اور میری بیوی کی تصاویر لیں۔ ہماری انگلیوں کے نشانات بھی لیے گئے۔
’ہم ایسی حالت میں ہیں کہ اگر ہم انکار کریں گے تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم میانمار میں محفوظ نہیں ہیں۔‘
سلطان کا کہنا ہے کہ ان جیسے لوگوں کو، جن کے نام فہرست میں شامل ہیں، بنگلہ دیش میں زیرِ نگرانی رکھا گیا ہے تاہم بی بی سی اس دعوے کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔
کاکس بازار کے کٹھن حالات
کاکس بازار کے کیمپوں میں خوف تو ہے ہی لیکن تجسس بھی ہے کیونکہ یہاں زندگی بھی مشکل ہے۔
اقوام متحدہ نے پناہ گزینوں کے لیے خوراک کی مد میں دی جانے والی امداد میں کٹوتی کی ہے کیونکہ اس کے لیے چلائی گئی فنڈنگ مہم سے مطلوبہ رقم کا صرف ایک چوتھائی حصہ ملا ہے۔
روہنگیا پناہ گزینوں کے ایک گروپ نے جون کے اوائل میں وطن واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج بھی کیا لیکن وہ بھی مکمل شہریت حاصل کرنے کی شرط پر ہی جانے کو تیار تھے۔
انورا واپس میانمار جانے کے بارے میں سوچ رہی ہیں کیونکہ انھیں بنگلہ دیش میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا
انورا بیگم کے چھ بچے ہیں اور وہ مشکل حالات سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ وہ اگست 2017 میں بھاگ کر یہاں آئی تھیں اور ان کے شوہر کے پاس باقاعدہ کام نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’بعض اوقات میں اپنے بچوں کے لیے کپڑے خریدنے کے لیے پیسے ادھار لیتی ہوں۔ میرا گزارہ خیرات پر ہے۔‘
انورا واپس میانمار جانے کے بارے میں سوچ رہی ہیں کیونکہ انھیں بنگلہ دیش میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔
’میں اپنے گاؤں واپس جانا چاہتی ہوں۔ اگر میانمار کی حکومت ہمیں تحفظ اور شہریت دے تو میں واپس چلی جاؤں گی۔‘
لیکن میانمار پر حکومت کرنے والی فوجی جنتا نے روہنگیا پروگرام کے دائرہ کار اور پیمانے کی وضاحت نہیں کی ہے۔
صحافیوں کے ساتھ ایک گروپ وائبر چیٹ میں، جنتا کی انفارمیشن کمیٹی کے ایک اہلکار نے کہا کہ میانمار ان پناہ گزینوں کو واپس لے جائے گا جن کی شناخت کی تصدیق ہو چکی ہے۔
ایک صحافی نے پھر پوچھا کہ وطن واپسی کا عمل کیوں شروع نہیں کیا گیا، تو اس پر اہلکار نے جواب دیا ’وہ (روہنگیا پناہ گزین) دوبارہ آبادکاری کی سکیم میں تاخیر کر رہے ہیں۔‘
بی بی سی برمی کے ایڈیٹر سو ون تھان کا کہنا ہے کہ جنتا روہنگیا کی اصطلاح استعمال کرنے سے انکار کرتی ہے۔
’فوجی قیادت نے حال ہی میں مغربی رخائن میں تباہی مچانے والے تباہ کن طوفان موچا کے متاثرین کا حوالہ بھی ’بنگالی‘ کہہ کر دیا۔ یہ کہنا کہ روہنگیا بنگلہ دیش سے ہیں اور ان کا تعلق میانمار سے نہیں ہے نسل پرستی ہے۔‘
دریں اثنا، تقریباً پانچ لاکھ روہنگیا اب بھی رخائن میں واقع کیمپوں میں مقیم ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے خبردار کیا ہے کہ پناہ گزینوں کو میانمار کی حکومت کے کنٹرول میں واپس بھیجنا ایک اور تباہ کن مرحلے کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے
جرمنی میں مقیم روہنگیا کارکن نی سان لون وطن واپسی کی سکیم کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’نام نہاد وطن واپسی کے لیے منتخب روہنگیا پناہ گزین بنیادی طور پر بنگلہ دیش کے ایک کیمپ سے میانمار کے دوسرے کیمپ میں جا رہے ہیں۔ یہ وطن واپسی نہیں ہے۔
’حکام 23 افراد کو ایک ٹرانزٹ کیمپ میں لائے ہیں جنھیں میانمار واپس جانے کے لیے فی خاندان دو ہزار ڈالر کی پیشکش کی گئی ہے۔ رقم کی پیشکش کے اعلان کے ایک دن بعد، 300 سے زیادہ خاندانوں نے اندراج کروایا۔ ابھی تک میں نے سنا ہے کہ میانمار کی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ وہ 200 خاندانوں کو قبول کریں گے۔‘
یہ واضح نہیں ہے کہ رقم کون فراہم کر رہا ہے۔ نی لون کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام صرف کچھ خاندانوں کو اپنی جانب متوجہ کرے گا۔
’مجھے نہیں لگتا کہ زیادہ تر پناہ گزین واپس جائیں گے کیونکہ میانمار کی حکومت شہریت، آزادانہ نقل و حرکت یا بنیادی انسانی حقوق کی پیشکش نہیں کر رہی ہے۔‘
Comments are closed.