روہت شرما: سکول کی فیس معاف کروانے سے ورلڈ کپ فائنل تک کا سفر

روہت

،تصویر کا ذریعہAAMIR QURESHI/AFP VIA GETTY IMAGES

  • مصنف, نتن شریواستو
  • عہدہ, نامہ نگار بی بی سی ہندی

انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما نے ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے احمد آباد میں ہونے والے فائنل تک انڈین ٹیم کے اس سفر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

لیکن روہت شرما کے اس نئے کردار پر بات کرنے سے پہلے، کچھ ذکر ہو جائے اُس وقت کا جب مالی مُشکلات نے ان کی زندگی کے بہت سے موقعوں پر اُن کا راستہ روکا۔

یہ بات ہے 1999 کی جب انڈین کرکٹ ٹیم محمد اظہر الدین کی کپتانی میں انگلینڈ میں ورلڈ کپ کھیل رہی تھی۔

یہاں ممبئی کے مضافاتی علاقے بوریولی میں 12 سالہ روہت شرما کے والد اور اہل خانہ نے بڑی محنت سے کچھ پیسے جمع کیے اور انھیں کرکٹ کیمپ میں بھیجنے کا بندوبست کیا۔

ان کے والد، جو ایک ٹرانسپورٹ فرم کے گودام میں کام کرتے ہیں، ان کی آمدنی کم تھی، اس لیے روہت ان دنوں اپنے دادا اور چچا روی شرما کے گھر رہتے تھے، لیکن وہاں بھی حالات مختلف نہیں تھے غربت نے وہاں کے مکینوں کو بھی پریشان کر رکھا تھا۔

لیکن پھر ایک میچ اور ایک سکول نے روہت کے کرکٹ کیریئر کا رخ بدل دیا۔

روہت

،تصویر کا ذریعہYOGESH PATEL

اسی سال روہت شرما بوریولی کے سوامی وویکانند انٹرنیشنل سکول کے خلاف میچ کھیل رہے تھے جب سکول کے کوچ دنیش لاڈ نے ان کا کھیل دیکھا اور سکول کے مالک یوگیش پٹیل سے انھیں سکالرشپ دینے کی سفارش کر دی۔

یوگیش پٹیل کے مطابق، جو اب 54 سال کے ہیں، ’ہمارے کوچ نے کہا کہ اس لڑکے میں کرکٹ کی بہت مہارت ہے لیکن اس کی فیملی ہمارے سکول کی 275 روپے ماہانہ فیس اپنی مالی حالت اور غربت کی وجہ سے ادا نہیں کر سکی، لہذا اسے سکالرشپ دیا جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا اور آج روہت انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان ہیں۔ ہمارے کوچ کی رائے درست تھی۔‘

پیسے کی کمی

اس فیصلے کے کئی سال بعد خود روہت شرما نے کرکٹ پر تجزیے اور تبصرے کرنے والی ویب سائٹ ’ای ایس پی این کرک انفو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’کوچ چاہتے تھے کہ میں وویکانند سکول میں داخلہ لوں اور کرکٹ کھیلنا شروع کروں لیکن میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ پھر انھوں نے مجھے سکالرشپ دی اور چار سال تک مجھے مفت پڑھنے اور کھیلنے کا موقع ملا۔‘

اس نئے سکول میں داخل ہونے کے چند ماہ کے اندر ہی روہت شرما نے 140 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی جس کے چرچے ممبئی کے سکولوں، میدانوں اور کرکٹ ناقدین تک ہوئے۔

سچن ٹنڈولکر، ونود کامبلی سے لے کر پروین امرے تک، سبھی ممبئی کے شیواجی پارک میں کرکٹ سیکھتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔

اس میدان پر اب بھی درجنوں نیٹس چل رہے ہیں، جن میں سے ایک اشوک شیوالکر کا ہے، جو اسی دور میں یہاں ایک کھلاڑی کے طور پر کھیلا کرتے تھے۔

اشوک شیوالکر کہتے ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ روہت شرما پہلے اپنے سکول کی جانب سے آف سپن بولنگ کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد ان کے کوچ نے ان کے بیٹنگ ٹیلنٹ کو بھانپ لیا۔‘

اس کے بعد روہت نے ممبئی کے مشہور کانگا لیگ کرکٹ سے لے کر ممبئی کرکٹ ایسوسی ایشن ٹورنامنٹس میں اپنے جھنڈے گاڑنا شروع کر دیے۔

وویکانند سکول کے مالک یوگیش پٹیل کہتے ہیں کہ ’روہت نے کووڈ-19 کے دوران مجھے فون کر کے ان کی خیریت دریافت کی تھی۔ میں نے کہا کہ لوگوں کی مدد کرتے رہو۔ اسے دیکھ کر خوشی ہوئی۔‘

روہت

،تصویر کا ذریعہYOGESH PATEL

یہ بھی پڑھیے

روہت کی حکمت عملی میں تبدیلی

آسٹریلیا کے خلاف نریندر مودی سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے اس فائنل تک پہنچنے والی انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما نے نا صرف اپنی کپتانی میں کیے جانے والے فیصلوں بلکہ اس پورے ٹورنامنٹ میں اپنی بیٹنگ سے بھی اپنی قابلیت کا ثبوت دیا ہے۔

2019 کے ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے روہت اس حالیہ کرکٹ ورلڈ کپ میں اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی لائے ہیں اور یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ بڑے ہدف کی پرواہ کیے بغیر میچ کی ابتدا میں پہلے پاور پلے میں ہی بولرز پر حملہ کر دیتے ہیں اور جارحانہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اس سے نہ صرف شبھمن گل کو مشکلات پر قابو پانے کا موقع ملا ہے بلکہ کوہلی، ائیر اور راہل کو بھی مڈل آرڈر میں اچھی پرفارمنس دینے کا پورا موقع ملا ہے۔

روہت

،تصویر کا ذریعہYOGESH PATEL

اس ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں وہ آسٹریلیا کے خلاف صفر پر آؤٹ ہوئے تھے لیکن اس کے بعد روہت شرما کا سکور کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہا ہے۔

131 رنز کی انگز سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ 86، 48، 46، 87، 4، 40، 61 کے بعد 47 رنز تک چلتا ہے اور روہت کی ان اننگز میں اُن کا سٹرائیک ریٹ 124.15 رہا ہے، جو قابل ستائش ہے۔

روہت کی اس پرفارمنس نے نہ صرف انڈیا کو اچھا آغاز دینے میں مدد دی ہے بلکہ کسی بھی ٹیم کی جانب سے دیے جانے والے بڑے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کرنا بھی اُن کے لیے آسان بنا دیا ہے۔

روہت کے اب تک کے اس کامیاب سفر میں اب بس اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ کرکٹ کے عالمی کپ کو اپنے ہاتھوں میں تھامے اسے ہوا میں بلند کرنے اور اس بڑے ایونٹ میں اپنی سرزمین پر کامیابی اپنے نام کرنے کی۔

ٹورنامنٹ کا آخری میچ اُسی آسٹریلوی ٹیم کے خلاف ہے جس کے مد مقابل ہونے والے پہلے میچ میں وہ کھاتہ ہی نہیں کھول سکے تھے۔

اب فائنل میں بڑا سکور بنا کر پہلے میچ کو بھول جانے سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے!

BBCUrdu.com بشکریہ