رومانیہ کا وہ خاندان جو امریکہ پہنچنے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا

اڈاچے

،تصویر کا ذریعہPETER IVYANI

،تصویر کا کیپشن

اڈاچے اور ان کی اہلیہ نے کینیڈا میں پناہ کی پہلی درخواست سنہ 2018 میں دی تھی

  • مصنف, ندین یوسف
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، ٹورانٹو

پانچ سال پہلے رومانیہ سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان جوڑا نئی زندگی کی امید لیے کینیڈا پہنچا تھا۔ لیکن ان کا یہ خواب اس وقت ایک اندوھناک انجام پر ختم ہو گیا جب میاں بیوی اور ان کے دو بچوں کی لاشیں دریائے سینٹ لارنس کے ٹھنڈے پانی سے برآمد ہوئیں۔ پولیس سمجھتی ہے کہ یہ خاندان انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے خاندان کے ساتھ امریکہ پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔

فلورن ایورڈاچے اور ان کی اہلیہ کرسٹینا (مونالیسا) زینیڈا تقریبا پانچ سال قبل ٹورنٹو پہنچے تھے۔ یہ دونوں رومانیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد میں شامل تھے جوسنہ 2018 میں کینیڈا میں پناہ کی غرض سے آ رہے تھے۔

اس جوڑے کا تعلق روما برادری سے تھا۔ یہ وہ نسلی گروہ یا قبیلہ ہے جسے رومانیہ اور یورپ کے کچھ حصوں میں پسند نہیں کیا جاتا اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

فلورن ایورڈاچے کے وکیل پیٹر ایویانی نے بی بی سی کو بتایا کہ روما برادری کے بہت سے لوگوں کی طرح ان کے مؤکل کو بھی رومانیہ میں اچھی تعلیم تک رسائی حاصل نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ تعمیراتی کام کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

پیٹر ایویانی کے موکل نے انھیں بتایا کہ ’انھیں اور ان کے اہل خانہ کو جوانی میں کئی بار جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لہٰذا جب کینیڈا نے رومانیہ کے شہریوں کے لیے ویزے پابندی ختم کر دی دیگر لوگوں کی طرح وہ بھی اس سکیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک سے نکل گئے۔

ایویانی کا کہنا تھا کہ مسٹر ایورڈاچے پناہ کی اپنی پہلی درخواست کی سماعت کے موقع پر پیش ہونے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ وکیل کے مطابق اس وقت ایورڈاچے کا اپنے خاندان سے بھی رابطہ منقطع ہو گیا۔

ایویانی نے بتایا کہ بعد میں انھیں معلوم ہوا کہ سنہ 2018 میں ہی امریکی حکام نے ایورڈاچے کو گرفتار کر لیا تھا کیونکہ وہ غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ امکان یہی ہے کہ ایورڈاچے اپنے بیوی بچوں کے پاس جانا چاہ رہے تھے جو اس وقت تک ریاست فلوریڈا میں مقیم ہو چکے تھے۔

اس واقعے کے بعد سنہ 2020 میں ایورڈاچے نے دوسری مرتبہ امریکہ میں پناہ کی درخواست دی، لیکن صرف ایک سال بعد، انھیں ان کی بیوی مونالیسا اور ان کے پہلے بچے کو اس وقت پھر روک لیا گیا جب وہ امریکہ داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

روزنامہ ٹورنٹو سٹار کی ایک رپورٹ کے مطابق اس خاندان کو ریاست واشنگٹن سے گرفتار کر کے واپس کینیڈا بھیج دیا گیا جہاں پہنچنے پر ایورڈاچے کو حراست میں لیا گیا۔

دورانِ حراست مسٹر ایورڈاچے نے کہا کیا کہ وہ امریکہ میں پناہ لینے کے لیے نہیں گئے تھے بلکہ ان کا خاندان کینیڈا اور امریکہ کی درمیانی سرحد کے قریب کینیڈا میں ہی ایک پارک میں آ رہا تھا جہاں وہ ان سے ملنے جا رہے تھے، لیکن جی پی ایس کی خرابی کی وجہ سے وہ حادثاتی طور پر سرحد پار کر گئے تھے۔

تاہم کینیڈا کے امیگریشن اور پناہ گزینوں کے نگران بورڈ کے ایک سرکاری وکیل نے ان پر یقین نہیں کیا۔

ایویانی نے گذشتہ سال ایورڈاچے کے خاندان کے ساتھ دوبارہ رابطہ شروع کیا تاکہ ان کی ممکنہ ملک بدری سے قبل آخری اپیل کر کے کینیڈین حکام کے سامنے یہ ثابت کیا جائے کہ اگر ایورڈاچے کو ملک بدر کر دیا گیا تو ان کا خاندان خطرے میں پڑ جائے گا۔

لیکن گذشتہ مارچ کے آخر میں مسٹر ایورڈاچے کو پتہ چلا کہ ان دونوں کی بے دخلی کے خلاف دی جانے والی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔

اور پھر گذشتہ ہفتے میاں بیوی اور ان کے دو کینیڈین نژاد بچوں کی لاشیں امریکہ اور کینیڈا کی سرحد کے قریب دریائے سینٹ لارنس سے ملیں۔ بچوں کی عمریں ایک اور دو سال تھیں۔

اس خاندان کے علاوہ دریا سے انڈیا سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ پروین چوہدری، ان کی بیوی 45 سالہ دیکشا، ان کے 20 سالہ بیٹے مِیت اور ان کی 24 سالہ بیٹی ودھی کی لاشیں بھی برآمد ہوئی ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دونوں خاندان امریکہ پہنچنے کی کوشش میں اس وقت ہلاک ہو گئے جب ان کی کشتی الٹ گئی۔ کینیڈین پولیس اب بھی اس 30 سالہ مقامی ملاح، کیسی اوکس کو تلاش کر رہی ہے، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس واقعے سے اس کا تعلق ہو سکتا ہے۔

ایویانی کہتے ہیں کہ انھیں اس بات کو کوئی علم نہیں تھا کہ مسٹر ایورڈاچے اور ان کا خاندان اس خطرناک سفر کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

اڈاچے

،تصویر کا ذریعہPETER IVYANI

،تصویر کا کیپشن

وکیل کے مطابق اس خاندان نے کینیڈا سے بے دخلی کے خطرے کی وجہ سے یہ انتہائی قدم اٹھایا

ایویانی کا کہنا تھا کہ اس سے قبل کی غلطیوں کے باوجود ایورڈاچے نے اپنے خاندان کے لیے محفوظ زندگی کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی، خاص طور پر اپنے دو بچوں کی پیدائش کے بعد۔

انھوں نے نہ صرف کینیڈا میں اپنے اور اپنی اہلیہ کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی بلکہ وہ اپنے بچوں کو اس ظلم وستم اور امتیازی سلوک سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے جس کا سامنا وہ خود کر چکے تھے۔

ایویانی کا کہنا تھا کہ ’میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ ایورڈاچے نے یوں سرحد پار کرنے کا جو بدقسمت فیصلہ کیا وہ خود غرضی پر مبنی نہیں تھا۔‘

ہلاک ہونے والا انڈین خاندان

اس بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وِزٹ ویزے پر کینیڈا آنے والا چوہدری خاندان امریکہ جانے کی کوشش کیوں کر رہا تھا۔

ان کے رشتہ داروں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس خاندان کا تعلق گجرات کے ضلع مہسانہ کے گاؤں مانک پور دبھالہ سے تھا۔

انھوں نے بتایا کہ خاندان اس سال تین فروری کو کینیڈا کے لیے روانہ ہوا تھا۔

چوہدری پراوین ایک کسان تھے اور اچھی کھیتی باڑی کر رہے تھے۔

پراوین کے کزن جسو بھائی چوہدری کے مطابق ’جہاں تک ہم جانتے ہیں، وہ صرف کینیڈا گئے تھے اور ان کا امریکہ جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

جسو کے بھائی

،تصویر کا کیپشن

جسو بھائی چوہدری کا کہنا تھا کہ انھیں اسی وقت خدشہ ہو گیا تھا جب انھیں ایک انڈین خاندان کی موت کی خبر مل گئی تھی

جسو بھائی نے کہا کہ کینیڈا میں چار ہندوستانی شہریوں کی لاشیں ملنے کی خبر سننے کے بعد انھیں خدشہ ہوا کہ مرنے والوں میں ان کے خاندان کے لوگ بھی ہو سکتے ہیں۔

’میں پریشان تھا اور انھیں (پروین کو) فون کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔‘

ان کے خدشات کی تصدیق اس وقت ہوئی جب کینیڈین پولیس نے انھیں ایک ای میل بھیجی جس میں انھیں پروین اور ان کے خاندان کی موت کے بارے میں مطلع کیا گیا۔ ان کی نعشیں اب انڈیا واپس بھینجے کا عمل جاری ہے۔

چوہدری خاندان گجرات سے تعلق رکھنے والا دوسرا خاندان ہے جس کی موت امریکہ اور کینیڈا کی سرحد کے قریب ہوئی ہے۔ جنوری 2022 میں شمالی ڈکوٹا کے قریب کینیڈا کے صوبے مینیٹوبا میں چار افراد پر مشتمل ایک خاندان کی لاشیں ملیں تھیں جو برف میں منجمد ہو چکی تھیں۔ ان کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

مقامی لوگوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ گجرات کے لوگ بہتر زندگی کی امید میں بیرونی ممالک، خاص طور پر امریکہ جانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ کچھ تو اپنے مقاصد تک پہنچنے کی خواہش میں انسانی اسمگلروں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں امریکہ اور کینیڈا کی سرحد کے راستے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

وہ علاقہ جہاں سے منجمد لاشیں ملیں تھی، وہاں کے مقامی حکام کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ اپنے جغرافیہ کی وجہ سے انسانی سمگلروں میں مقبول ہے۔

مقامی پولیس جنوری سے اب تک امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش کرنے والے 80 افراد کو پکڑ چکی ہے۔

اس رپورٹ کی تیاری میں گجرات سے روکسی گگڈیکر نے مدد کی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ