روس یوکرین جنگ: کیا موبائل فونز کی وجہ سے روسی فوجیوں کے ٹھکانے کا پتہ لگانا ممکن ہوا؟

یوکرین جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روس کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ان کی افواج کے زیر استعمال موبائل فونز کی وجہ سے یوکرین کو ان کے فوجیوں کے ایک ٹھکانے کا پتا چلا اور وہ اسے نشانے بنانے میں کامیاب ہوئے۔ یوکرین کے مشرقی شہر ماکیوکا میں ایک میزائل حملے میں درجنوں جبری بھرتی کیے گئے روسی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

روسی وزارت دفاع کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ’اس استعمال کی وجہ سے دشمن کو فوجیوں کے مقام اور میزائل حملہ کرنے میں مدد ملی تھی۔‘

یوکرین نے دعویٰ کیا ہے کہ نئے سال کے پہلے دن ہونے والے حملے میں تقریباً 400 روسی فوجی مارے گئے تھے جبکہ روسی حکام کا کہنا ہے کہ 89 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔  

کیا موبائل فونز کی وجہ سے روسی فوجیوں کے ٹھکانے کا پتہ لگانا ممکن ہوا؟

یوکرین جنگ

مغربی میڈیا میں جنگ کے آغاز سے ہی دونوں ممالک کی افواج کی ایک دوسرے پر حملے کی غرض سے فون کالز انٹرسیپٹ کرنے اور فون کی جیو لوکیشن معلوم کرنے کی صلاحیتوں کے بارے میں وسیع پیمانے پر رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں۔

گذشتہ برس مارچ میں جنگ کے آغاز کے چند ہفتوں بعد ہی نیویارک ٹائمز نے ایک نامعلوم امریکی اہلکار کے حوالے سے بتایا تھا کہ یوکرین کی افواج ایک روسی جنرل کی کال کو انٹرسیپٹ کرنے، اس کے مقام کا پتا لگانے اور اسے عملے سمیت مارنے میں کامیاب رہی تھیں۔

اسی طرح مارچ میں ہی سکائی نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں روس کے لیئر تھری سسٹم کے بارے میں بتایا تھا جس کے ذریعے ڈرونز کو ٹارگٹ ایریا کے اوپر اڑایا جاتا ہے اور یہ موبائل فونز کی طرح کے سگنلز دینے اور اس کی نقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس سے دشمن کے موبائل فونز سگنلز دھوکے سے رابطے میں آ سکتے ہیں۔

جس کے بعد یہ ڈرونز اس معلومات کو قریبی محفوظ علاقے میں ایک بیس سٹیشن تک پہنچاتے ہیں، جہاں سے موبائل فونز کے مقام کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔

لیکن بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ فریقین موبائل فون کو ٹریک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تاہم چند مبصرین نے ماکیوکا میں ہونے والے تازہ حملے کی اس وضاحت پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔

بی بی سی روسی سروس نے اس سے قبل نئے جبری بھرتی کیے گئے فوجیوں سے بات کی تھی جن کا کہنا تھا کہ جیسے ہی وہ اپنے یونٹوں میں پہنچتے ہیں ان کے فون چھین لیے جاتے ہیں۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ روسی فوجیوں کی جانب سے دوسرے آلات کی کمی کی وجہ سے اگلے محازوں پر موبائل فون استعمال کرنے کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کیوں چند جبری  بھرتی ہونے والے فوجیوں کے پاس موبائل فونز ہو سکتے ہیں۔

دفاعی نامہ نگار جوناتھن بِیل کا تجزیہ

روسی حکام اس حملے پر اپنے فوجیوں کے موبائل فون کے استعمال کو مورد الزام ٹھہراتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اگر یہ سچ ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فوج کے ڈسپلن میں اتنی نرمی کیوں تھی؟

زیادہ تر افواج کسی جنگ کے دوران آپریشنل سکیورٹی اور ذاتی سکیورٹی کی اہمیت کو لازم قرار دیتے ہوئے موبائل فون کے استعمال کو محدود کرتی ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں بظاہر دیگر کوتاہیاں بھی ہوئی ہیں۔ ایک عمارت میں بڑی تعداد میں فوجیوں کا ہونا، جہاں گولہ بارود بھی رکھا گیا ہو، اسے ایک واضح ہدف بنایا۔  

سیٹیلائٹ یا ڈرون کے ذریعے نقل و حرکت اور رحجان سے یہاں فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں پتا کیا جا سکتا تھا۔ اگرچہ ہیمارس جیسے طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ نظام نے اس میں یوکرین کی مدد کی ہے، لیکن ان حملوں کے پیچھے انٹیلی جنس ہے جس نے اصل فرق ڈالا ہے۔

ماکیوکا پر حملہ ظاہر کرتا ہے کہ روس اب بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب یوکرین نے کسی فوجی بیرک کو نشانہ بنایا ہو۔

لیکن ایک چیز میں تبدیلی آئی ہے۔ سکیورٹی کنسلٹنسی سیبی لائن کے سربراہ جسٹن کرمپ کا کہنا ہے کہ روس کے اندر ہونے والی تنقید سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب اس طرح کی نااہلی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

تاہم، جانی نقصان پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے روس میں بہت سے ناقدین اسے جنگ میں تیزی کے جواز کے طور پر دیکھتے ہیں۔

یوکرین جنگ

اس حملے میں کیا تباہ ہوا؟

روس کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ یوکرینی فوج نے ماکیوکا میں ایک عارضی فوجی ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا۔

تباہ کن حملے کے بعد کی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک عمارت حملے سے مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے فوراً اس کی شناخت کرتے ہوئے اسے ووکیشنل سکول نمبر 19 کی عمارت قرار دیا۔

 اس نام کو آن لائن تلاش کرنے سے ایک تصویر سامنے آئی جس کا موازنہ ہم نے حملے کی جگہ پر موجود عمارت کی سیٹلائٹ تصویر سے کیا (اس کی تباہی سے پہلے) تاکہ اس میں مماثلت تلاش کی جا سکے۔

عمارت میں بڑی مقدار میں گولہ بارود کے ذخیرہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ لیکن برطانیہ کی وزارت دفاع نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ حملے کے مقام پر ’نقصان کو دیکھتے ہوئے‘ یہ ممکن ہے کہ وہاں اسلحہ موجود تھا۔

 

حملے میں امریکی میزائل استعمال ہوئے، روس

ہیمارس

روسی حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں یوکرین کو امریکہ کے فراہم کردہ ہیمارس میزائل سسٹم کا استعمال کیا گیا۔

حملے کے فوراً بعد، یوکرین کی وزارت دفاع نے ایک ٹویٹ شائع کیا جس میں میزائل لانچ ہوتا دکھایا گیا تھا، اور ساتھ صرف ایک لفظ لکھا تھا: ’سرپرائز۔‘

ہیمارس، ایم 142 ایک جدید موبلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم ہے اور ایک ایسا راکٹ لانچر نظام ہے جو پانچ ٹن وزنی ٹرک پر نصب ہوتا ہے اور چھ گائیڈڈ میزائلوں کو فوراً فائر کر سکتا ہے۔

یوکرین کو فراہم کیے جانے والے میزائلوں کی ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت 50 میل (80 کلومیٹر) تک ہے، جو کہ امریکہ کی جانب سے پہلے یوکرین کو دیے جانے والے ہاؤٹزر کی ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت سے دوگنی ہے۔

امریکہ نے یوکرین کو ایسے 38 سسٹم فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ تنازع کے آغاز سے اب تک یوکرین کو 20 فراہم کیے جا چکے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ