روس یوکرین جنگ: کیا انڈیا کا اس تنازع پر غیر جانبدارانہ موقف اب دباؤ کا شکار ہے؟
- سوتک بسواس
- بی بی سی نامہ نگار، انڈیا
سوموار کے روز امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے واشنگٹن میں کارباری شخصیات سے ایک ملاقات میں کہا کہ کواڈ گروپ کے ممالک میں سے صرف انڈیا یوکرین پر روسی حملے پر اپنا ردعمل دینے پر ’کچھ حد تک ہچکچاہٹ‘ کا شکار تھا۔
امریکی صدر نے کہا کہ کواڈ گروپ کے باقی ممالک امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا ’پوتن کی جارحیت سے نمٹنے کے معاملے پر انتہائی سخت مؤقف‘ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ انڈیا، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل کواڈ گروپ کو ایشیا میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کے خلاف ایک اتحاد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تاہم آزادی کے بعد سے انڈیا کی خارجہ پالیسی دنیا میں بڑی طاقتوں کی عالمی سیاست کے تناظر میں زیادہ تر غیر جانبدار رہی ہے۔ انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے مطابق ’ہم بڑے بلاکس سے دور رہیں گے، تمام ممالک کے ساتھ دوستی کریں گے اور کسی اتحاد میں شامل نہیں ہوں گے۔‘
لیکن کیا یوکرین میں جاری جنگ میں انڈیا کی غیر جانبداری اب دباؤ کا شکار ہے؟
’ماضی میں مثال نہیں ملتی‘
واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک ’ولسن سینٹر‘ میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ ’انڈیا پر دباؤ ہے اور اس بارے میں کوئی شک نہیں۔‘
مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ ’ماضی کے مقابلے میں ایسے کسی معاملے پر غیر جانبدار رہنا اب زیادہ بڑا جوا ہے، خاص کر کے ایسے موقع پر جب یوکرین پر روسی حملہ دہائیوں میں ہونے والی بدترین جارحیت ہے اور مغرب کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کبھی انتے مضبوط نہ رہے ہوں۔‘
اقوام متحدہ میں روس کے خلاف مذمتی قرار دادوں پر ووٹنگ پر انڈیا نے ایک ہفتے کے دوران تین بار ووٹنگ سے اجتناب کیا۔ جنگ کے نتیجے میں توانائی کے شعبے میں قیمتوں میں اضافے کے بعد روس سے رعایتی قیمت پر انڈیا میں تیل کی درآمدات میں اضافے کی اطلاعات ہیں اور اس وجہ سے انڈیا نے روس پر تنقید نہیں کی، جسے وہ ’اپنا دیرینہ دوست‘ قرار دیتا ہے۔
روس اور انڈیا کے درمیان تعلقات دہائیوں پرانے ہیں اور اس کے علاوہ انڈیا کو سب سے زیادہ اسلحہ بھی روس ہی فراہم کرتا ہے۔
امریکہ انڈیا کو اس بارے میں رضامند کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ چیزیں اب بدل چکی ہیں۔ امریکہ اور انڈیا کے درمیان تعلق مزید مضبوط ہو چکا ہے، انڈیا اور امریکہ کے درمیان 150 ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت جبکہ روس اور انڈیا کے درمیان آٹھ ارب ڈالر کی تجارت ہے۔
امریکہ کی سیاسی امور کی سیکرٹری خارجہ وکٹوریہ نولینڈ نے اس ہفتے دلی کا دورہ کیا اور ان کے مطابق انھوں نے انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور سینئیر حکام کے ساتھ ’طویل اور گہری گفتگو‘ کی۔ وکٹوریہ نولینڈ نے انڈیا اور روس کے درمیان تاریخی تعلق کو تسلیم کیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ’اب وقت بدل گیا ہے‘ اور ’انڈیا کی سوچ میں ارتقا‘ ہوا ہے۔
انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ اور یورپ، انڈیا کے مضبوط ’دفاعی اور سکیورٹی شراکت دار‘ بننے کو تیار ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ انڈیا کو روسی دفاعی سامان پر انحصار ختم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔
وکٹوریہ نولینڈ نے یہ بھی کہا کہ یوکرین روس جنگ ’آمرانہ جمہوری جدوجہد‘ میں ’انتہائی اہم موڑ‘ تھا جس میں انڈیا کی حمایت کی ضرورت تھی۔
مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے اس طرح کے واضح پیغام کی ’ماضی میں مثال نہیں ملتی‘ لیکن انڈین ماہرین یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ان کا ملک سفارتی دباؤ کا شکار ہے۔
انڈیا یوکرین کے معاملے پر روس پر تنقید کیوں نہیں کر رہا؟
انڈین ماہرین اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کواڈ کے دیگر ممبر ممالک انڈیا کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اور خود امریکہ نے یوکرین کے لیے انڈیا کی انسانی امداد کو تسلیم کیا تھا۔
سابق انڈین سفارت کار جتندر ناتھ مسرا کہتے ہیں کہ ’کواڈ گروپ میں اگر کوئی ملک تنہائی کا شکار ہے تو وہ انڈیا نہیں بلکہ امریکہ ہے۔‘
اور اپنے سٹریٹجک شراکت دار پر پابندیاں لگا کر اسے کمزور کرنے سے امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ امریکہ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈیا کا ساتھ چاہتا ہے۔
’سٹریٹجک طور پر غیر جانبدار‘
ماہرین کہتے ہیں کہ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ روس سے قریبی تعلق کی وجہ سے انڈیا یوکرین کے معاملے سے باخبر نہیں۔
ماہرین گذشتہ ہفتے جاپان کے وزیراعظم فومیو کیشیڈا کے دلی دورے پر وزیراعظم مودی کے ساتھ مشترکہ بیان کی جانب اشارہ کرتے ہیں جن میں دونوں رہنماؤں نے ’یوکرین میں جاری بحران پر تشویش کا اظہار کیا۔‘
اس کے علاوہ وزیراعظم مودی روس کے صدر پوتن اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو بھی تشدد کے خاتمے کی تاکید کر چکے ہیں۔ جنگ شروع ہونے پر انڈین حکومت نے 90 فلائٹس کے ذریعے یوکرین میں پھنسے اپنے 22 ہزار شہریوں کو بھی باحفاظت وہاں سے نکالا تھا۔
سابق سفارتکار انیل تریگنیت جو ماسکو میں اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں، کہتے ہیں کہ امریکی صدر کا بیان کہ انڈیا ’ہچکچاہٹ کا شکار تھا، ممکنہ طور پر کوئی مذاق تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا کا مؤقف مستقل اور اصولوں کے مطابق رہا ہے۔ انڈیا یوکرین کی خودمختاری، علاقائی سلامتی اور مذاکرات کے لیے کھڑا رہا۔ ہمیں سٹریٹجک طور پر غیر جانبدار رہنا تھا۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔‘
دلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں خارجہ پالیسی کے پروفیسر ہیپی مون جیکب کا ماننا ہے کہ ’انڈیا پر دباؤ نہیں بڑھا کیونکہ وہ تضادات کو اچھی طرح سے سنبھالے ہوئے ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا کو واقعی کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت تھی۔‘
کیا انڈیا زیادہ کر سکتا ہے؟
اس بارے میں انڈین ماہرین کی رائے منقسم ہے۔
انڈیا کے سابق سیکرٹری خارجہ شیو شنکر مینن نے انڈیا کے آن لائن جریدے ’دا وائیر‘ کو بتایا کہ ’اگرچہ انڈیا نے اس بحران کو قابل ستائش انداز میں سنبھالا لیکن اسے اس بارے میں دو ٹوک مؤقف اپنانا چاہیے تھا۔ یہ ایک حملہ ہے، جنگ ہے۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو اس سے آپ کی ساتھ متاثر ہوتی ہے۔‘
مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ ’لیکن پرانی یادوں اور گہرے اعتماد سے بھرپور ماسکو کے ساتھ خصوصی تعلقات کی وجہ سے انڈیا آسانی سے اپنے اتحادی کے خلاف نہیں ہو گا۔‘
’روس کے بڑے حملے کے باوجود یہ جذبات مشکل سے مرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انڈیا مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی متاثر نہیں کرنا چاہتا۔‘
انڈیا میں یوکرین کے سفارتکار ایگور پولیکھا نے اس جنگ کے آغاز میں کہا تھا کہ انڈیا کو ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ اس کے مغرب سے تعلقات متاثر نہ ہوں۔
مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ انڈیا کو روس اور یوکرین کے ساتھ اپنے تعلقات کو دونوں ملکوں میں جادی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
پروفیسر جیکب کہتے ہیں کہ جب یوکرین نے ثالثی کے لیے کہا تھا تو انڈیا کو یہ آفر قبول کر لینی چاہیے تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا کے پاس اب بھی موقع موجود ہے۔ اسے آگے بڑھ کر غیر جانبدار ثالث کی پیشکش کرنی چاہیے۔‘
انڈیا کو چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں امریکہ اور روس دونوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ گذشتہ برس انڈیا اور چین ہمالیہ کے متنازعہ خطے میں ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے۔
انیل تریگنیت کہتے ہیں کہ انڈیا کو سٹریٹجک خودمختاری کی پالیسی اپنانا ہو گی اور ’سٹریٹجک اتحاد کے لیے اقوام‘ کے ایک گروپ کی شروعات کرنا ہو گی تاکہ اپنے ترقیاتی مفادات کو حاصل کیا جا سکے۔
انڈیا کے سابق سیکرٹری خارجہ شیام ساران کہتے ہیں کہ انڈیا کے لیے سب سے ’خوفناک صورتحال‘ وہ ہو گی کہ امریکہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسے روس سے شدید خطرہ ہے جس کی وجہ سے وہ چین کے ساتھ سٹریٹجک شراکت داری چاہتا ہے۔ دو ٹوک الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ ایشیا میں چینی تسلط کو تسلیم کرتے ہوئے، اپنے یورپی حصے کی حفاظت کرنا۔‘
یہ ایک ایسا ’ڈراؤنا خواب‘ ہے، جس کی انڈیا کو کبھی عادت نہیں ہو گی۔
Comments are closed.