روس یوکرین تنازع: کیا انٹرنیٹ کی دنیا بکھرنے والی ہے؟
- جین ویکفیلڈ
- ٹیکنالوجی رپورٹر
یوکرین اور روس کی جنگ کے نتیجے میں انٹرنیٹ کے بہت سے قواعد کی دھجیاں اڑ چکی ہیں
یوکرین کے بڑھتے ہوئے تنازعے کے ساتھ دنیا ہر لحاظ سے ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جو اس سے قبل کبھی دیکھی نہیں گئی۔
میٹا، گوگل اور ایپل جیسی کارپوریٹ کمپنیاں جو ہمیشہ اپنے آپ کو غیر جانبدار ٹیک کمپنیاں کہتی رہی ہیں اب ان کا سیاسی رنگ نظر آنے لگا ہے کیونکہ وہ روس کے حملے کے جواب میں اس ملک میں اپنی مصنوعات پر پابندیاں عائد کر رہی ہیں۔
ان سب کے درمیان روس میں بھی انٹرنیٹ صارفین کے لیے بدل رہا ہے۔ ٹوئٹر اور فیس بک کے بلاک ہونے کے ساتھ، ٹک ٹاک روسی صارفین کو پوسٹ کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے، اور پولیس مبینہ طور پر لوگوں کو سڑکوں پر روک رہی ہے تاکہ وہ یہ جان سکے کہ لوگ اپنے فون پر کیا دیکھ رہے ہیں۔
اب اس بارے میں بھی سوالات ہو رہے ہیں کہ آیا یہ تنازع نہ صرف دنیا کے جغرافیے کو تبدیل کر سکتا ہے بلکہ عالمی انٹرنیٹ کی نوعیت کو بھی بنیادی طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔
کیا روس کو انٹرنیٹ سے منقطع کر دیا جانا چاہیے؟
یوکرین کی حکومت نے ایک ایک ٹیک کمپنی کو روس میں دی جانے والی اپنی خدمات پر پابندی لگانے کے لیے کہا ہے، اور وہاں کاروبار کرنے یا مصنوعات فروخت کرنے سے انکار کرنے والی ٹیک فرموں کی فہرست میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اب یوکرین کے ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ رہنما کچھ زیادہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ روس کو عالمی انٹرنیٹ سے مکمل طور پر منقطع کرنے کی بات کہہ رہے ہیں۔
ان کے اس مطالبے کو آئی کین (ICANN) نے پرزور انداز میں مسترد کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ آئی کین وہ کارپوریشن ہے جو نام اور نمبر فراہم کرتا ہے اور دنیائے انٹرنیٹ کو چلاتا ہے۔
اس سے کہا گیا تھا کہ وہ روس کے اعلیٰ درجے کی ڈومینز جیسے کہ ڈاٹ آر یو (.ru) اور اس کے ساتھ اس کے سیکیور ساکٹس لیئر (ایس ایس ایل) کے سرٹیفیکیٹس کو منسوخ کر دے۔
واضح رہے کہ آئی کین کی ٹیگ لائن ‘ایک دنیا، ایک انٹرنیٹ’ ہے اور یوکرین کے نائب وزیر اعظم میخائیلو فیڈروف کے جواب میں آئی کین کے چیف ایگزیکٹیو گوران ماربی نے کہا ‘ہم اپنے مقاصد کے تحت غیر جانبداری برقرار رکھتے ہیں اور عالمی انٹرنیٹ کی حمایت میں کام کرتے ہیں۔ اشتعال انگیزی سے قطع نظر ہمارا مشن تعزیری کارروائیاں کرنے، پابندیاں جاری کرنے، یا انٹرنیٹ پر کسے حصے کے خلاف رسائی کو محدود کرنے کی حمایت نہیں کرتا ہے۔
ڈیجیٹل پرائیویسی گروپ الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن (ای ایف ایف) اس فیصلے کی حمایت کرنے والی متعدد تنظیموں میں سے ایک ہے۔
ای ایف ایف کے کورائن مکشیری اور کوسٹینٹینوز کومیتس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنگ ‘انٹرنیٹ کے ساتھ گڑبڑ’ کرنے کا وقت نہیں ہے۔ انٹرنیٹ کے بنیادی ڈھانچے کے پروٹوکول میں مداخلت کے ‘نتائج خطرناک اور دیرپا’ ہوں گے۔
جن میں یہ باتیں شامل ہیں:
- لوگوں کو معلومات شيئر کرنے کے سب سے طاقتور آلے سے محروم کرنا
- ایک خطرناک مثال قائم کرنا
- سکیورٹی اور رازداری سے سمجھوتہ کرنا
سائبر حملوں کے خلاف تحفظ فراہم کرنے والی کلاؤڈفیئر نامی ویب انفراسٹرکچر کمپنی کو بھی یوکرین نے روس کے اندر اپنی خدمات ختم کرنے کے لیے کہا ہے۔
اپنے ایک بلاگ میں کمپنی نے کہا کہ اس نے ان درخواستوں پر غور کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ‘روس کو کم کے بجائے انٹرنیٹ تک زیادہ رسائی کی ضرورت ہے۔’
Splinternet کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
بہت سے لوگوں کے لیے روس کو انٹرنیٹ سے منقطع کرنے کی اپیل خطرناک ڈھلوان ہے جسے سپلنٹرنیٹ (Splinternet) کہا جاتا ہے اور یہاں مختلف ممالک میں انٹرنیٹ کے مختلف ورژن موجود ہوتے ہیں۔
چین کا انٹرنیٹ جسے عظیم فائر وال کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ شاید اس بات کی سب سے واضح مثال ہے کہ کوئی ملک اپنا ویب کیسے بنا سکتا ہے۔
اسی طرح ایران میں بھی نیٹ کے مواد کی نگرانی کی جاتی ہے اور ایران کی سرکاری ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے ذریعے بیرونی معلومات کو محدود کیا جاتا ہے۔
روس خود بھی کئی سالوں سے ایک خودمختار انٹرنیٹ کے ساتھ تجربہ کر رہا ہے جسے رونیٹ کا نام دیا گیا ہے۔ حالانکہ روسی ورژن ریٹروفٹ ایک ایسا ورژن ہے جو چین کے ’built-from-the-ground-up‘ ورژن سے مختلف ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سنہ 2019 میں روسی حکومت نے کہا کہ اس نے اس ورژن کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ یونیورسٹی آف سرے کے کمپیوٹر سائنس دان پروفیسر ایلن وڈوارڈ نے کہا کہ اس وقت بہت کم لوگوں کو اس کی ضرورت سمجھ میں آئی تھی لیکن اب یوکرین کے حملے کے تناظر میں، یہ سب ‘بہت زیادہ معنی خیز’ نظر آ رہا ہے۔
اس تجربے میں، روسی آئی ایس پیز سے کہا گیا کہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر انٹرنیٹ کو مؤثر طریقے سے ترتیب دیں گویا کہ یہ ایک بڑا انٹرانیٹ ہے یعنی ویب سائٹس کا ایک نجی نیٹ ورک جو بیرونی دنیا سے بات نہیں کرتا۔
اس اقدام میں ان نکات کو محدود کرنا شامل تھا جن پر روس کا ورژن اپنے عالمی ہم منصب سے نیٹ پر جڑا تھا۔
اب ایسا لگتا ہے کہ روس ان سسٹمز کی دوبارہ جانچ کر رہا ہے۔ روسی حکومت کی جانب سے ایک میمو میں آئی ایس پیز سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی سکیورٹی کو بہتر بنائیں اور روس میں اسے ڈومین نیم سسٹم (DNS) سرورز سے منسلک کریں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میمو، اور 11 مارچ کو تجربے کی تکمیل کی تاریخ کا مطلب یہ ہے کہ روس اپنے آپ کو فوری طور پر دنیائے انٹرنیٹ سے منقطع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
پروفیسر وڈوارڈ اسے تیاری کے ایک امتحان کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا ‘یہ روس کی طرف سے آئی ایس پیز کو تیار ہونے، ڈی این ایس (یعنی انٹرنیٹ کی فون بک) کی مقامی کاپیاں بنانے، اور تیسرے فریق کے سافٹ ویئر یعنی روس سے باہر کے سرورز سے آنے والے جاوا سکرپٹ جیسے مقامی ورژن رکھنے کے بارے میں زیادہ تھا۔’
بہر حال روس نے انکار کیا ہے کہ وہ خود کو دنیا کے انٹرنیٹ سے منقطع کر دے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ تجربے روسی ویب سائٹس کو غیر ملکی سائبر حملوں سے بچانے کے لیے ہیں۔
لیکن ‘دی گریٹ فائر وال آف چائنا’ کے مصنف جیمز گریفتھس کا خیال ہے کہ پلگ کسی بھی وقت نکالا جا سکتا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ‘انٹرنیٹ کو کاٹنا، اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ روسی صرف وہی مواد استعمال کر رہے ہیں جس کی کریملن نے منظوری دی ہے، اس قسم کی چیزیں عسکری حکمت عملی کے لحاظ سے معنی رکھتی ہیں، تاکہ آپ اسی راستے کو دیکھیں جو ہم دکھانا چاہتے ہیں۔’
‘مجھے حیرت نہیں ہوگی اگر یہ آنے والے ہفتوں یا مہینوں میں نافذ ہوجائے۔’
اس کے نتائج کیا ہوں گے؟
ہاؤ ٹیکنالوجی از ریمیکنگ گلوبلائزیشن نامی کتاب کے مصنف ابیشور پرکاش کا کہنا ہے کہ یوکرین کا تنازع انٹرنیٹ کو نئی شکل دے رہا ہے جو کہ ‘اس عالمی نظام جس میں پوری دنیا شامل ہے’ کو منقسم دنیا میں تبدیل کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘جغرافیائی سیاست کی وجہ سے انٹرنیٹ کے لیے ایک مختلف قسم ابھر رہی ہے جہاں ممالک کو یا تو منقطع کیا جا رہا یا پھر وہ اپنا متبادل تیار کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرح کا عالمی پل جو دہائیوں سے پوری دنیا کی آبادیوں کو جوڑ رہا ہے اسے منہدم کیا جا رہا ہے۔’
اور جیمز گریفتھس کے مطابق انٹرنیٹ کی خالص طاقت کا نیا محور مغرب اور چین/روس کے درمیان تقسیم ہو جائے گا۔
‘چین کے عظیم فائر وال کے بانی کی شہرت رکھنے والے لیو ویئی نے سنہ 2016 میں روس کا دورہ کیا تاکہ روس جو کچھ کر رہا ہے اس میں ان کی مدد کریں اور روسی فائر وال کو چینی فائر وال کی طرح بنا دیں۔’
اور اب روس ایک بار پھر بیجنگ کی طرف دیکھے گا کیونکہ انٹرنیٹ کمپنیاں روس سے اپنی خدمات اور مصنوعات واپس لے رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘چونکہ روسی معیشت بڑی حد تک عالمی معیشت سے منقطع ہوتی جا رہی ہے تو روس ایسے میں چین کا رخ کریں گے۔ انھیں چین پر ماضی سے بھی زیادہ انحصار کرنا پڑے گا۔’
بہر حال ابھی تک ہواوے جیسی ٹیک کمپنیوں نے اس تنازعے پر باضابطہ طور پر کچھ نہیں کہا ہے۔
Comments are closed.