روس یوکرین تنازع: پوتن کے فیصلے کے بعد انڈیا مشکل میں، آپشنز کیا ہیں؟
یوکرین اور روس کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیرِ کنٹرول دو خطوں کو بطور آزاد علاقے تسلیم کرنے کے بعد وہاں روسی دستے بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
یہ دو علاقے ڈونیسک اور لوہانسک ہیں۔
پوتن نے روسی فوجیوں کو ان علاقوں میں داخل ہونے کا حکم دے دیا ہے۔ پوتن کے اس اعلان کے بعد مغربی ممالک نے سخت ردِ عمل دیا ہے اور امریکہ اور یورپ روس پر پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔
یوکرین کے بحران سے پیدا ہونے والی صورتحال نے انڈیا کو بھی کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ تاریخی طور پر انڈیا یوکرین کے معاملے پر روس کے ساتھ رہا ہے مگر سنہ 2014 کے مقابلے میں اب حالات مختلف ہیں۔
روس نے مارچ 2014 میں یوکرین کے خطے کرائمیا پر قبضہ کر لیا تھا اور انڈیا نے اس معاملے پر کم ہی بات کی مگر جب بھی مؤقف دیا، روس کے حق میں ہی اظہارِ خیال کیا۔
انڈیا نے سلامتی کونسل میں کیا کہا؟
یوکرین کے بحران پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں انڈیا نے منگل کو کہا کہ تمام فریقین کو اس معاملے پر تحمل سے کام لینا چاہیے۔
اقوامِ متحدہ میں انڈیا کے مستقل مندوب ٹی ایس تریمورتی نے کہا کہ انڈیا یوکرین سے متعلق پیش رفت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ انڈیا یوکرین کی مشرقی سرحد پر ہونے والی پیش رفت اور روس کے اعلان سے پیدا ہونے والی صورتحال کو دیکھ رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ روس اور یوکرین کی سرحد پر تنازعے میں اضافہ گہری تشویش کا باعث ہے اور اس طرح کے واقعات خطے میں سلامتی اور تحفظ پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
ٹی ایس تریمورتی نے انڈین مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے فریقین کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اس وقت تمام ممالک کے سکیورٹی مفادات کے تحفظ اور خطے میں طویل مدتی سلامتی اور استحکام کے لیے فوری طور پر تناؤ میں کمی کی ضرورت ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ معاملہ صرف گفتگو سے ہی حل ہو سکتا ہے۔ انڈین سفیر کا کہنا تھا کہ ماضی قریب میں تناؤ دور کرنے کے لیے فریقین کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اُنھوں نے اس حوالے سے معاہدہ منسک کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ مذاکرات کے ذریعے معاملے کے پرامن حل کی راہ دکھاتا ہے۔
ٹی ایس تریمورتی نے مزید کہا کہ تناؤ کے فوجی اقدامات کی حد تک بڑھ جانے کا رسک نہیں مول لیا جا سکتا، اور یہ کہ تناؤ میں کمی کے لیے مثبت سفارت کاری کی ضرورت ہے۔
اقوامِ متحدہ میں انڈیا کے مستقل مندوب نے یہ بھی کہا کہ یوکرین میں فی الوقت 20 ہزار انڈین شہری تعلیم و ملازمت کے سلسلے میں مقیم ہیں اور انڈیا کی توجہ ان لوگوں کی فلاح پر ہے۔
تاہم اپنے پورے بیان میں اُنھوں نے کہیں بھی پوتن کی مذمت نہیں کی۔
کرائمیا پر انڈیا کا مؤقف
مارچ 2014 میں جب روس نے کرائمیا پر قبضہ کیا تو اس وقت وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کے مشیرِ قومی سلامتی شیو شنکر مینن نے کہا تھا کہ ‘روس کا کرائمیا میں جائز مفاد ہے۔’ اُنھوں نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی۔
اس کے بعد صدر ولادیمیر پوتن نے انڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘میں ان سب کا شکر گزار ہوں جنھوں نے کرائمیا میں روسی اقدام کی حمایت کی۔ میں چین کا شکرگزار ہوں جس کی قیادت نے کرائمیا میں روسی پیش قدمی کی حمایت کی اور میں انڈیا کے تحمل اور غیر جانبداری کا بھی خیر مقدم کرتا ہوں۔’
اس وقت چین اور انڈیا کے درمیان سرحد پر کوئی تنازع نہیں تھا۔ اپریل 2020 میں چین نے مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کی عرصے سے قائم صورتحال کو تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے فوجیوں میں اس معاملے پر جھڑپیں بھی ہوئیں۔ اب بھی اس سرحد پر تنازع جاری ہے اور ایل اے سی پر اپریل 2020 سے پہلے کی صورتحال بحال نہیں ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
روس کے پانچ بینکوں اور تین ارب پتی افراد پر برطانوی پابندیاں: برطانیہ میں روس کی کتنی دولت موجود ہے؟
سرحد پر چینی جارحیت کو دیکھتے ہوئے انڈیا کو نہ صرف روس کی بلکہ امریکہ اور یورپ کی بھی ضرورت ہے۔ روس اور مغرب کے دیگر ممالک اس وقت یوکرین کے معاملے پر آمنے سامنے ہیں۔ ایسی صورتحال میں انڈیا کسی فریق کی حمایت کر سکتا ہے نہ ہی خاموش تماشائی بنا رہ سکتا ہے۔
امریکہ انڈیا کے ساتھ سرحد پر چینی جارحیت کے معاملے پر انڈیا کی حمایت کرتا رہا ہے مگر روس نے کسی کی بھی حمایت نہیں کی ہے۔
انڈیا کی خاموشی
دی ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر اور ساؤتھ ایشیا ایسوسی ایٹ مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ ‘روس کے حوالے سے انڈیا کا مؤقف حیران کُن نہیں ہے۔ آج اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا بھی اجلاس ہوا۔ جب روس نے سنہ 2014 میں کرائمیا پر قبضہ کیا تو انڈیا نے اس پر زیادہ بات نہیں کی۔ جب اقوامِ متحدہ میں اس حوالے سے ووٹنگ ہوئی تو انڈیا نے ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔ آج بھی انڈیا کا مؤقف یہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ انڈیا اسے کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی رہا ہے۔’
اپنی ایک اور ٹویٹ میں مائیکل کوگلمین نے لکھا: ‘مگر انڈیا اور امریکہ کے تعلقات سنہ 2014 کے مقابلے میں مضبوط ہوئے ہیں۔ اب دہلی پر پہلے سے زیادہ دباؤ ہے۔ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا اور جنگ چھڑ گئی تو یہ انڈیا کے لیے بہت بری صورتحال ہو گی۔’
انھوں نے کہا ‘اس معاملے پر انڈیا کا کردار بطور خاموش تماشائی آسان نہیں ہو گا۔ پر اگر یوکرین پر حملہ نہ بھی ہوا تو بھی یہ انڈیا کے لیے پیچیدہ معاملہ ہو گا۔ اگر روس نے محدود فوجی اقدام اٹھایا تو اس پر پابندیاں عائد ہوں گی، بیجنگ اس سے مضبوط ہو گا اور امریکہ کی توجہ بٹ جائے گی۔ یہ تمام حالات نئی دلی کے مفاد میں نہیں ہیں۔‘
انڈو پیسیفک اُمور کے ماہر ڈیریک جے گروسمین نے ٹویٹ کی کہ ‘یوکرین پر روسی جارحیت کی مذمت نہ کرنے کا انڈین فیصلہ حیران کُن ہے۔ انڈیا روس کے ساتھ دو طرفہ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا۔ انڈیا کواڈ اتحاد کا واحد ملک ہے جو روسی جارحیت کو نظرانداز کر رہا ہے۔ یہ درحقیقت بہت عجیب صورتحال ہے۔’
انھوں نے مزید کہا ‘یوکرین اور روس کے معاملے پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہو رہا ہے۔ ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ اب قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام پر چین کا مؤقف کیا ہے۔ مگر زیادہ توقعات قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔’
گروسمین نے لکھا: ‘آج پوتن نے کہا کہ یوکرین روس کا داخلی معاملہ ہے۔ اب تک چین یہی تائیوان کے بارے میں کہتا رہا ہے۔’
انڈیا کو کیا کرنا چاہیے؟
اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں سیکریٹری خارجہ اور روس میں انڈیا کے سفیر کنول سیبل نے 21 فروری کو انڈیا نیریٹیو میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ انڈیا کا روس یوکرین تنازعے پر کیا مؤقف ہونا چاہیے۔
کنول سیبل نے لکھا: ‘انڈیا کے امریکہ، یورپ اور روس سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہمیں کسی کی طرفداری نہیں کرنی چاہیے۔ اس وقت بہت مؤثر خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ فریقین اس وقت دیکھ رہے ہیں کہ انڈیا کس کی حمایت کرے گا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ انڈیا اس کی حمایت کرے، روس چاہتا ہے کہ انڈیا آزادانہ فیصلہ کرے اور امریکہ کے دباؤ میں نہ آئے۔ کسی بھی قسم کا فوجی تنازع انڈیا کے لیے اچھا نہیں ہو گا کیونکہ اس کے عالمی طور پر سخت نتائج ہوں گے۔’
اُنھوں نے مزید لکھا کہ ‘روس پر مغربی پابندیوں کا انڈیا کے فوجی معاہدوں پر اثر ہوگا۔ ایک طرف انڈیا روس کے ہائیڈروکاربن شعبے میں سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ امریکہ نے اب تک روس سے ایس 400 میزائل خریدنے کے باعث انڈیا پر اپنے سی اے اے ٹی ایس اے قانون کے تحت پابندیاں عائد نہیں کی ہیں۔ تیل کی قیمتیں بڑھیں گی اور اس سے انڈین معیشت بھی متاثر ہوگی۔ یہ سب ایسے وقت میں ہوگا جب ہماری معیشت کووڈ کے باعث کساد بازاری کے اثرات سے باہر آ رہی ہے۔’
انڈیا کا مؤقف
31 جنوری کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے رائے شماری کی کہ کیا یوکرین پر روسی حملے کے خدشے پر بحث ہونی چاہیے یا نہیں۔ مگر انڈیا نے اس رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ امریکہ کی قیادت میں 10 ممالک نے اس بحث کے حق میں ووٹ دیا۔
کینیا اور گیبون نے بھی انڈیا کی طرح رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ روس اور چین نے اس بحث کے خلاف ووٹ دیا۔ اس رائے شماری میں ویٹو کی گنجائش نہیں تھی اور کامیابی کے لیے نو ووٹ چاہیے تھے۔ امریکہ کو یقین تھا کہ اسے اس بحث کے لیے نو سے زائد ووٹ مل جائیں گے۔
یہ دوسری مرتبہ تھا کہ انڈیا نے یوکرین کے بحران کو سفارتی اور مثبت بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔
انڈیا نے رائے شماری میں حصہ نہ لے کر یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ یوکرین کے معاملے پر کسی کیمپ کا حصہ نہیں۔ مگر اس کے باوجود اس کا مؤقف روس کی حمایت میں ہی تصور کیا جا رہا ہے۔
Comments are closed.