روس یوکرین تنازع: روس کے پاس کتنے جوہری ہتھیار ہیں؟
- ویژوئل جرنلزم ٹیم
- بی بی سی نیوز
روس کی جوہری قوت کے بارے میں صرف اندازے ہی لگائے جا سکتا ہیں
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے روس کی نیوکلیئر فورسز کو ‘خصوصی’ الرٹ پر رہنے کا حکم دیا ہے، جس سے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان اقدامات سے روس ممکنہ طور پر دوسرے ممالک کو خبردار کرنا چاہتا ہے کہ وہ یوکرین میں کشیدگی میں اضافہ کرنے میں مداخلت نہ کریں نہ کہ وہ جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔
جوہری ہتھیار تقریباً 80 سال سے موجود ہیں اور بہت سے ممالک انہیں ایک ایسی دفاعی صلاحیت کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کی قومی سلامتی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔
روس کے پاس کتنے ایٹمی ہتھیار ہیں؟
جوہری ہتھیاروں کے تمام اعداد و شمار اندازوں پر ہی مبنی ہیں لیکن، فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے مطابق، روس کے پاس 5,977 جوہری وار ہیڈز ہیں یعنی وہ آلات جو جوہری دھماکے کو متحرک کرتے ہیں، حالانکہ اس میں تقریباً 1,500 ایسے ہیں جن کی مدت پوری ہو گئی ہے اور اب ان کو تلف کیا جانا باقی ہے۔
بقیہ 4,500 یا اس سے کچھ زیادہ ایسے ہیں جن کی اکثریت کو سٹریٹجک جوہری ہتھیار سمجھا جاتا ہے، جو عام طور پر صرف جوہری جنگ کے دوران استعمال کے لیے بنائے جاتے ہیں اور جو طویل فاصلے پر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہوتے ہیں۔
باقی چھوٹے، کم تباہ کن جوہری ہتھیار ہیں جو میدان جنگ یا سمندر میں کم فاصلے تک استعمال کے لیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روس کے پاس طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہزاروں جوہری ہتھیار تیار ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت صرف 1,588 روسی وار ہیڈز ‘تعینات’ ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہتھیار میزائلوں، بمبار اڈوں یا سمندر میں آبدوزوں پر نصب ہیں۔
دوسرے ممالک کے ساتھ موازنہ
دنیا بھر کے دو سو سے زیادہ ملکوں میں صرف نو چین، فرانس، انڈیا، اسرائیل، شمالی کوریا، پاکستان، روس، امریکہ اور برطانیہ کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
چین، فرانس، روس، امریکہ اور برطانیہ بھی ان 191 ریاستوں میں شامل ہیں جنہوں نے جوہری عدم پھلاؤ کے عالمی معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط کر رکھے ہیں۔
اس معاہدے کے تحت انہیں اپنے جوہری وار ہیڈز کے ذخیرے میں تخفیف کرنی ہے، کہنے کی حد تک وہ انھیں مکمل طور پر تلف کرنے کے پابند ہیں۔
روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج
اسی وجہ سے 1970 اور 1980 کی دہائیوں کے بعد جوہری طاقتیں اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں کمی کرتی رہی ہیں۔
شمالی کوریا سنہ 2003 میں جوہری عدم پھلاؤ کے عالمی معاہدے سے الگ ہو گیا تھا جبکہ انڈیا، اسرائیل اور پاکستان نے اس معاہدے پر کبھی دستخط ہی نہیں کیے ہیں۔
جوہری ہتھیار رکھنے والے دنیا کے نو ملکوں میں سے اسرائیل واحد ملک ہے جس نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں یا اس نے جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ لیکن سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
یوکرین کے پاس کوئی جوہری ہتھیار نہیں ہیں اور صدر پوتن کے الزامات کے باوجود اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس نے انہیں حاصل کرنے کی کوشش کی ہو۔
ایٹمی ہتھیار کتنے تباہ کن ہوتے ہیں؟
جوہری ہتھیار وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔
تباہی کی نوعیت کئی عوامل پر منحصر ہے:
- جوہری ہتھیار کا حجم
- زمین سے کتنی اونچائی پر یہ پھٹتا ہے
- مقامی ماحول
لیکن چھوٹے سے چھوٹا جوہری ہتھیار یا وار ہیڈ بھی بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کے مضر اثرات طویل مدت تک برقرار رہتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے شہر ہیروشیما میں 146,000 افراد کو ہلاک کرنے والا بم 15 کلوٹن وزنی تھا۔
اور جدید دور کے جوہری وار ہیڈز 1,000 کلوٹن سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔
جوہری دھماکے کے فوری اثر والے خطے یا جس جگہ جوہری دھماکہ کیا جائے وہاں زندگی کے کوئی اثار باقی نہیں رہتے۔
جوہری دھماکے کی صورت میں آنکھوں کو اندھا کر دینے والی چمک کے ساتھ ایک انتہائی زور دار دھماکے کے ساتھ ایک بہت بڑا آگ کا گولہ بنتا ہے۔ دھماکہ اتنا شدید ہوتا ہے جس کی وجہ سے کئی کلومیٹر کے دائرے میں کوئی عمارت یا کوئی تعمیراتی ڈھانچہ برقرار نہیں رہ سکتا اور پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن جاتا ہے۔
‘نیوکلیئر ‘ڈیٹرنٹ’ کا کیا مطلب ہے اور کیا یہ کار گر ثابت ہوا ہے؟
بڑی تعداد میں جوہری ہتھیاروں کو برقرار رکھنے کی دلیل یہ ہے کہ آپ کے پاس دشمن کو نیست و نابود کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ اس خوف یا ڈر سے آپ پر کسی قسم کی جارحیت کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچے گا۔
اس خوف کے لیے سب سے مشہور اصطلاح ‘میڈ’ (Mutually Assured Destruction) یعنی جوہری ہتھیار کو پہلے استعمال کرنے والا اور جس پر جوہری ہتھیار استعمال ہوا ہو، دونوں کی مکمل تباہی یقینی ہے، کا اصول آج بھی لاگو ہوتا ہے۔
اگرچہ جوہری بم کی ایجاد کے بعد سے بہت سے جوہری تجربات کیے گئے ہیں اور ان کی تکنیکی پیچیدگی اور تباہی پھیلانے کی قوت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، لیکن 1945 کے بعد سے کسی بھی مسلح تصادم یا جنگ میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔
روس کی جوہری پالیسی بھی اس جوہری ہتھیاروں کو صرف ایک ‘ڈیٹرنٹ’ یا دشمن کو باز رکھنے کے لیے رکھنے پرمبنی ہے اور صرف چار صورتوں میں اس کے استعمال کی بات کی جاتی ہے:
- روسی فیڈریشن اور اس کے اتحادیوں پر بیلسٹک میزائل داغے جانے کی صورت میں
- روسی فیڈریشن یا اس کے اتحادیوں کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کیے جانے کی صورت میں
- روسی فیڈریشن کی اہم سرکاری، فوجی اور جوہری تنصیبات پر حملے کی صورت میں
یا روسی فیڈریشن پر روایتی ہتھیاروں سے اتنے بڑے حملے کی صورت میں جب ریاست کی سلامتی ہی خطرے میں پڑ جائے۔
ہمیں کتنا پریشان ہونا چاہیے؟
بی بی سی کے دفاعی امور کے نامہ نگار گورڈن کوریرا کا تجزیہ
ایٹمی تصادم کا امکان تھوڑا سا بڑھ گیا ہے لیکن پھر بھی کم ہے۔
صدر پوتن کی طرف سے اگر یہ بیان صرف دوسرے ملکوں کو خبردار کرنے کے لیے بھی دیا گیا ہے تب بھی اور ان کا جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تب بھی، فریق مخالف کی طرف سے اس کا غلط مطلب نکالنے یا صورت حال قابو سے باہر ہو جانے کی صورت میں یہ اندیشہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ غلط فہمی میں کسی جانب سے یہ ہتھیار استعمال نہ کر لیے جائیں۔
برطانیہ کے وزیر دفاع بین والیس نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ برطانیہ نے اب تک روس کے جوہری ہتھیاروں کی اصل حالت میں تبدیلی یا ان کی کوئی نقل و حرکت نہیں دیکھی ہے۔
انٹیلیجنس ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اس پر گہری نظر رکھی جائے گی۔
Comments are closed.