روس کے انتخابات میں ولادیمیر پوتن کی جیت کیوں یقینی تھی؟،تصویر کا ذریعہMIKHAIL KLIMENTYEV/SPUTNIK/AFP

  • مصنف, لورا گوزی اور فرانسز سکار
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 53 منٹ قبل

روسی ایگزٹ پولز کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوتن 87 فیصد ووٹ حاصل کر کے ملک کے پانچویں بار صدر منتخب ہو گئے ہیں۔کریملن نے یقینی بنایا تھا کہ ولادیمیر پوتن کے خلاف کوئی بھی ایسا حریف نہ کھڑا ہو جس کی کوئی ساکھ ہو، اس لیے یہ بات یقینی تھی کہ وہ پانچویں مرتبہ بھی روس کے صدر بننے میں کامیاب ہوجائیں گے۔گذشتہ برس دسمبر میں گرینڈ ملٹری ایوارڈز کی تقریب میں 71 برس کے ولادیمیر پوتن نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایک بار پھر صدارتی امیدوار ہوں گے۔کریملن میں تقریب کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ فیصلے لینے کا وقت ہے، میں ایک بار پھر روس کے صدر کے عہدے کے لیے الیکشن لڑوں گا۔‘

یہ وہ وقت تھا جب گذشتہ 24 برسوں سے روس کے صدر کی کرسی پر براجمان ولادیمیر پوتن یوکرین میں ’سپیشل ملٹری آپریشن‘ میں حصہ لینے والے فوجی اہلکاروں میں اعزازات تقسیم کر رہے تھے۔ولادیمیر پوتن اس وقت اس تقریب کے شرکا سے بات کر رہے تھے جب دونیتسک میں روس کے حامی ایک کمانڈر ان کی طرف آئے۔لیفٹننٹ کرنل ارتیوم زہوگا نے پوتن کو کہا کہ ’ہمیں آپ کی ضرورت ہے، روس کو آپ کی ضرورت ہے۔‘ انھوں نے پوتن کو کہا کہ آپ آئندہ بھی صدارتی انتخاب لڑیں اور وہاں موجود دیگر لوگوں نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی۔اس کے بعد روس کی میڈیا مشینری حرکت میں آئی اور تمام سرکاری چینلز پر صدر پوتن کو قومی ہیرو بنا کر پیش کیا گیا جنھیں اپنے تمام متوقع مخالفین پر سبقت حاصل ہے۔گذشتہ ہفتے ایک رپورٹر سرکاری ٹی وی پر کہتے ہوئے سُنائی دیے کہ ’ولادیمیر پوتن عوام کے امیدوار ہیں۔‘ولادیمیر پوتن روس کی تاریخ میں جوزف سٹالن کے بعد انتے لمبے عرصے اقتدار میں رہنے والے پہلے رہنما ہیں۔پوتن سنہ 2000 سے صدر کی کُرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ صرف ایک بار وہ چار برس کے لیے وزیرِاعظم رہے ہیں کیونکہ روس کے آئین کے مطابق کوئی بھی شخص دو بار سے زیادہ ملک کا صدر نہیں منتخب ہوسکتا۔اس کے بعد انھوں نے ملک کی آئین میں تبدیلیاں کیں تاکہ وہ 2024 میں ایک بار پھر صدارتی انتخاب لڑ سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدر پوتن 2030 میں ایک مرتبہ پھر صدر کا انتخاب لڑ سکیں گے۔،تصویر کا ذریعہKremlin Press Officeایوان صدر میں رہتے ہوئے پوتن نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی اور یقینی بنایا کہ ان کی طاقت کی راہ میں رُکاوٹ نہ کھڑی ہو سکے۔ ان کے ناقدین یا تو مر چکے ہیں، یا جیل میں ہیں یا پھر جلاوطنی کاٹ رہے ہیں۔اس کے باوجود بھی کریملن کی طرف سے کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ روس کے انتخابی عمل کو شفاف قرار دے سکے۔صدر پوتن کی جیت اور انتخاب کے نتائج کے حوالے سے کسی کو کوئی شبہ نہیں تھا لیکن پھر بھی روسی حکام ٹرن آؤٹ کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں تاکہ پوتن کے پاپولر مینڈیٹ کے ثبوت پیش کیے جا سکیں۔روس میں 2018 میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں 68 فیصد ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا تھا، تاہم بین الاقوامی مبصرین نے اس وقت بھی انتخابی دھاندلی کے کئی واقعات پر روشنی ڈالی تھی۔اس برس ووٹنگ کا طریقہ پچھلے صدارتی انتخاب کے مقابلے میں آسان رکھا گیا تھا۔ اتوار کو ختم ہونے والی ووٹنگ کے بعد اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ اس بار ٹرن آؤٹ 74 فیصد سے زیادہ ہوگا۔یوکرین کے قبضہ شدہ علاقوں، جنھیں روس اپنا ’نیا خطہ‘ کہتا ہے، میں ووٹنگ انتخاب کے دن سے 10 دن پہلے ہی شروع ہوگئی تھی اور سوشل میڈیا ایسے اشتہارات سے بھرا پڑا تھا جن میں لوگوں سے ووٹ ڈالنے کی گزارش کی گئی تھی۔انتخابات میں ووٹرز کو ایک مخالف امیدوار کے کھڑے ہونے کا تاثر بھی دیا گیا تھا۔بیلٹ پیپر پر صدر بوتن کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے امیدوار نکولائی خریتونوف کی تصویر بھی موجود تھی۔کمیونسٹ پارٹی سویت یونین کے ٹوٹ جانے کے 30 برس بعد بھی روس کی دوسری سب سے زیادہ مقبول جماعت ہے۔ اس کے حامیوں میں ان لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو آج بھی سویت یونین کو یاد کرتے ہیں۔صدارتی انتخاب میں پوتن کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے دیگر دو امیدوار لیونڈ سلٹسکی اور ولاڈیسلاف ڈوانکوف تھے جن کا تعلق لبرل اور پرو بزنس جماعتوں سے ہے۔یہ تمام لوگ سیاسی اختلافات کے باوجود کریملن کی پالیسیوں کی حمایت کرتے آئے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی صدارتی انتخاب جیتنے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا۔ان کے علاوہ ماسکو کے ایک مقامی کونسلر بورس ندیزہدین نے بھی گذشتہ برس انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد اپوزیشن کے حامی ووٹرز کو امید ہوئی تھی کہ شاید انھیں اس بار مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔وہ سرکاری ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز میں تواتر سے آ رہے تھے اور یوکرین کی جنگ کے حوالے سے روس پر تنقید بھی کر رہے تھے۔لیکن ایک ایسا ملک جہاں جنگ کے خلاف بات کرنے پر لوگوں کو جیل میں قید کر دیا جاتا ہے وہاں بورس ندیزہدین کا انتخاب میں حصہ لینا ممکن نہیں تھا۔ان کے کیمپ کے باہر ہزاروں لوگوں کی قطاریں لگی ہوئیں تھیں جو ان کی حمایت میں ان کے کاغذات نامزدگی پر دستخط کرنے آئے تھے۔ شاید اس مقبولیت سے انتخابی حکام گھبرا گئے اور ان کے کاغذات نامزدگی یہ کہہ کر مسترد کر دیے کہ ان پر موجود 15 فیصد دستخط جعلی ہیں۔ندیزہدین کے الیکشن سے آؤٹ ہونے سے اس صدارتی انتخاب میں کسی بھی قسم کے سرپرائز کا پہلو ختم ہوگیا۔الیکشن سے قبل ٹی وی چینلز پر امیدواروں کے درمیان بحث منعقد کروائی گئی لیکن صدر پوتن کسی بھی پروگرام میں شریک نہیں ہوئے۔،تصویر کا ذریعہREUTERS/Yulia Morozovaاس دوران صدر پوتن کی مزدورں، فوجیوں اور طالب علموں سے ملاقاتوں کی خبرِیں ٹی وی جینلز پر چلتی رہیں۔فروری کے آخری دنوں میں پوتن کے قوم سے خطاب کو انتخابی منشور بنا کر پیش کیا گیا۔ان کے اس خطاب میں یوکرین میں جاری جنگ کی بات تو کی ہی گئی تاہم اس کے علاوہ انھوں نے روس کے اندرونی معاملات پر بھی اظہار خیال کیا۔شاید صدر پوتن بالآخر یہ تسلیم کر رہے تھے کہ روس کے عوام اپنے اندروانی مسائل کی زیادہ فکر کرتے ہیں، نہ کہ جنگی میدان کی یا مغربی ممالک سے اختلافات کی۔صدر پوتن نے اس خطاب میں وعدہ کیا تھا کہ وہ روس کے نظام میں نئی اصلاحات لائیں گے جن میں نیا ٹیکس سسٹم بھی شامل ہوگا۔ اس کے علاوہ وہ روس میں بچوں کی پیدائش کی شرح کو بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کریں گے۔صدر پوتن کی اس تقریر میں ایسے بہت سے موضوعات بشمول غربت، ایجوکیشن، صحت اور انفراسٹرکچر نظر آئے جن کے بارے میں روس کے لوگ بات کرتے ہوئے دِکھائی دیتے ہیں۔یعنی کہ یہ ایک طرح کا اقرار تھا کہ 20 برس ایوانِ صدر میں رہنے کے باوجود بھی صدر پوتن ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ابھی بھی روس کا تقریباً 40 فیصد بجٹ قومی سلامتی اور عسکری معاملات پر خرچ ہوتا ہے۔روسی حکومت کی جانب سے جن اقدامات کا اعلان کیا جاتا ہے ان کو پورا کرنے کے لیے اکثر مزید سرمایہ کاری کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ وہاں کرپشن کے سنجیدہ مسائل موجود ہیں۔لیکن ان تمام باتوں کا صدارتی انتخاب پر کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق الیکشن نہ ہی صاف تھے اور نہ شفاف تھے۔انتخابی مہم کے دوران کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار نکولائی خریتونوف مہنگائی سے متعلق خبروں کو دیکھتے ہوئے غصے میں مٹھیاں بھینچتے ہوئے نظر آئے۔وہ کہہ رہے تھے کہ ’ہم نے کیپیٹل ازم سے بہت کھیل لیا، بس بہت ہوگیا‘ اور پھر وہ ریڈ سکوائر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے نظر آئے تاکہ وہ الیکشن جیت کر کریملن میں رہائش اختیار کر سکیں۔لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔،تصویر کا ذریعہRussian Communist Partyسوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک اور ویڈیو میں لیونڈ سلٹسکی کو اپنی پارٹی لے سابق لیڈر کے آفس میں بیٹھے ہوئے دِکھایا گیا جنھوں نے ان کی پارٹی کی 30 برس قیادت کی تھی۔جب ایک کارکن نے ڈیسک پر سے سابق لیڈر کے نام کی پلیٹ ہٹانے کی کوشش کی تو لیونڈ سلٹسکی نے غصے میں کہا: ’نہیں، اسے وہیں چھوڑ دیں۔‘اس ویڈیو سے یہ تاثر ملا کہ لیونڈ سلٹسکی روسی صدر پوتن کے سائے سے باہر ہی نہیں نکلنا چاہتے۔روس میں انتخاب کے خلاف کہیں کہیں احتجاج بھی دیکھنے میں آیا جہاں کچھ لوگوں نے بیلٹ باکسز میں سیاہی ڈال دی یا انھِیں نذرِ آتش کردیا۔لیکن الیکشن کے خلاف پولنگ سٹیشنوں اور بیرونِ ملک سفارتخانوں کے باہر سب سے نمایاں مظاہرے صدر پوتن کے مخالف رہنما آلکسی ناوالنی کے حامیوں نے کیے۔خیال رہے ناوالنی کی موت پچھلے مہینے روس کی ایک جیل میں واقع ہوئی تھی اور ان کی اہلیہ نے اسے قتل قرار دے کر اس کا الزام صدر پوتن پر عائد کیا تھا۔ناوالنی کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ احتجاجی مظاہروں کا مقصد ملک میں کوئی تبدیلی لانا نہیں تھا بلکہ جامیوں کو یہ بتانا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو پہچانیں اور وہ تنہا نہیں ہیں۔پھر 18 مارچ کی صبح جب پوتن سو کر اُٹھے تو انھیں خبر ملی کہ وہ ایک بار پھر صدر منتخب ہوگئے ہیں۔جب وہ ماسکو میں فتح کے بعد منعقد کی گئی ایک ریلی میں حاضر ہوئے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور انھوں نے اپنے ووٹرز کا شکریہ بھی ادا کیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}