روس کی ہتھیاروں سے لیس ’جنگجو ڈولفن‘ کیا حقیقت میں وجود رکھتی ہیں؟
- مصنف, وکٹوریا پرائسڈسکایا
- عہدہ, بی بی سی یوکرین سروس
میڈیا میں اکثر ایسی لڑاکا ڈولفن کا ذکر ہوتا ہے جنھیں مبینہ طور پر روس سیواسٹاپول بے نامی بحری اڈے کی حفاظت کے لیے استعمال کرتا ہے۔
جون کے آخر میں برطانوی خفیہ اداروں کی جانب سے بھی ایسی ڈولفن کا تذکرہ سامنے آیا۔ برطانوی وزارت دفاع نے سیٹلائیٹ تصاویر کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ روس نے سیواسٹاپول کے بحری اڈے کی سکیورٹی میں اضافہ کرتے ہوئے نئی رکاوٹیں لگائی ہیں اور تربیت یافتہ سمندری ممالیہ کی تعداد دوگنا کر دی ہے جو بظاہر ’بوٹل نوز‘ ڈولفن ہیں۔
اس سے قبل نیول نیوز بھی ایسی ہی خبر دے چکا ہے لیکن کیا ڈولفن واقعی روسی بحری جہازوں کو سمندری حملے سے بچا سکتی ہیں؟
کیا یوکرین بھی ڈولفن کا عسکری استعمال کر رہا ہے اور سب سے اہم سوال یہ کہ کیا یہ جانور اس وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں؟ بی بی سی یوکرین سروس نے چند ماہرین سے ان سوالات پر بات کی۔
اندرے ریزینکو عسکری امور کے ماہر ہیں جن کا بچپن سیواسٹاپول میں گزرا۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈولفن قدرتی ریڈار کی حامل ہوتی ہیں جن کی مدد سے وہ پانی کے نیچے لوگوں اور اشیا کی موجودگی کافی فاصلے سے ہی شناخت کر سکتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان صلاحیتوں کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے ارادے سے روس نے پہلی بار 1970 میں ایک خصوصی یونٹ قائم کی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک خفیہ تجرباتی منصوبہ تھا جس کا ابتدائی مقصد سائنسی تحقیق تھا۔
’اس تجربے کے تحت ڈولفن کا جائزہ لیتے ہوئے ایسے تیز رفتار بحری جہاز تیار کرنے کی کوشش کی گئی جو پانی میں زیادہ شور مچائے بنا حرکت کر سکیں۔‘
اندرے ریزینکو کے مطابق بعد میں چند تربیت یافتہ ڈولفن روسی بحریہ کے سپرد کر دی گئیں اور 1975 سے ان کو روسی بحری اڈے کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان کا دعوی ہے کہ یہ ڈولفن ایک ہتھیار سے لیس ہوتی ہیں اور کسی کو ہلاک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں خصوصا ایسے غوطہ خور ڈائیورز کو جو روسی بحری جہازوں کو تباہ کرنے کے ارادے سے زیر سمندر آ سکتے ہوں۔
انھوں نے وضاحت کی کہ ان ڈولفن پر ایک نیزہ نصب کیا جاتا ہے اور انھیں تربیت دی جاتی ہے کہ کیسے زیر سمندر کسی غوطہ خور کے سینے میں اسے گھونپا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 1980 میں سیواسٹاپول کے بحری سکول میں انھوں نے یہ آلہ دیکھا تھا۔ تاہم حقیقت میں اب تک ان ڈولفن کی جانب سے کسی کے خلاف کارروائی کے شواہد نہیں ہیں۔
تحقیقی مراکز میں دیگر جانوروں کو تربیت دینے کے تجربات بھی ہو چکے ہیں
آزادی کے بعد ڈولفن پر سائنسی تجربات کرنے والا ادارہ یوکرین کی ملکیت بن گیا اور عسکری تجربات روک دیے گئے۔
2013 میں 10 ڈولفن یوکرین کی بحریہ کو فراہم کر دی گئیں جنھیں زیر سمندر اشیا کی تلاش کے لیے تربیت دی گئی۔ 2014 میں جب روس نے کریمیا پر قبضہ کر لیا تو ایک بار پھر ڈولفن کی تحقیق کا ادارہ روسی فوج کے پاس چلا گیا اور اس سینٹر کو اوڈیسا منتقل کر دیا گیا۔
اس وقت یوکرین کی جانب سے ڈولفن کے عسکری استعمال کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔
مغربی خفیہ ایجنسیوں کا دعوی ہے کہ 2014 سے روس نے عسکری مقاصد کے لیے ڈولفن کا دوبارہ استعمال شروع کیا۔
یوکرین کے بلاگر سرگئی مامیوو سے بات کرتے ہوئے بحری امور کے ماہر پاول لاکیوچک نے کہا کہ چند ڈولفن ایک خصوصی دستے کو دی گئیں اور انھیں تخریب کاروں کی تلاش کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
2022 میں سیٹلائیٹ تصاویر کی مدد سے دیکھا گیا کہ روس نے سیواسٹاپول بندرگاہ کے باہر ڈولفن کے پنجرے رکھے ہوئے تھے۔ برطانوی خفیہ ایجنسی کی جانب سے تازہ ترین تصاویر میں نئی پنجرے بھی دیکھے گئے ہیں۔
اگرچہ اب تک ڈولفن کے کامیاب عسکری استعمال کے ٹھوس شواہد دستیاب نہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا استعمال ممکن ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کوئی تربیت یافتہ تیراک ایک تربیت یافتہ ڈولفن سے بچ نہیں سکتا۔ تاہم بحری امور کے ماہر پاول لاکیوچک کا کہنا ہے کہ روسی بحری جہازوں کو غوطہ خور تخریب کاروں سے نہیں بلکہ ڈرون سے خطرہ ہے۔
اندرے ریزینکو کا کہنا ہے کہ مغربی ٹیکنالوجی نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلنے والی آبدوز نما کو بھی ممکن بنا دیا ہے جنھیں زیر سمندر عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ روس کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود نہیں اور اسی لیے وہ قدامت پسند طریقے ترک نہیں کر رہا۔
واضح رہے کہ سیواسٹاپول کے بحری اڈے پر متعدد بار ڈرون حملے ہو چکے ہیں۔
مبینہ طور پر عسکری مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی یہ ڈولفن بحیرہ اسود کی ایک مخصوص نسل ہے جسے بوٹل نوز یعنی بوتل کی ناک والی ڈولفن کہا جاتا ہے۔
ماہر حیاتیات ایوان روسیو نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ڈولفن انسان دوست ہوتی ہے اور بہت عقل مندر جانور ہے۔
ایسے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں جن میں ایسی ڈولفن نے ڈوبتے ہوئے انسانوں کو بچایا یا ان کے قریب سے شارک کو دور بھگایا۔
چند ماہرین کا ماننا ہے کہ اس ڈولفن کو بندروں اور کتوں سے بھی بہتر طریقے سے تربیت دی جا سکتی ہے۔ لیکن ان کی یہی صلاحیت ان کے لیے پریشانی کا باعث بھی ہے۔
1960 کی دہائی میں ہزاروں کی تعداد میں ڈولفن کو پکڑا گیا تاکہ ان پر تجربات کیے جا سکیں۔ ایوان روسیو، جنھوں نے اوڈیسا کے تحقیقی مرکز میں بھی کچھ عرصہ کام کیا، کہتے ہیں کہ ڈولفن قید میں جلد مر جاتی ہے۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تربیت کے مقاصد کے تحت ڈولفن کو خوراک نہیں دی جاتی جس کے نتیجے میں وہ کمزور ہو کر بیمار ہو جاتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اب تک لڑاکا ڈولفن کی افادیت کے شواہد نہ ہونے کے باوجود ان کے استعمال اور تجربات کا قدرتی طورپرنقصان ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ قدرت کے خلاف جرم ہے۔‘ ان کی رائے میں یہ ڈولفن نایاب ہے اور اسے سمندر میں ہی رہنے دیا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے آغاز سے اب تک بحیرہ اسود میں اندازوں کے مطابق تین مختلف اقسام کی 50 ہزار ڈولفن ہلاک ہو چکی ہیں۔ ایوان روسیو کے مطابق ان کی ہلاکت کی وجہ بمباری بھی ہے اور بحری جہازوں کے ہائیڈرواکاؤسٹک نظام سے پیدا ہونے والا دباؤ بھی۔
Comments are closed.