گذشتہ موسم خزاں میں انھوں نے تقریباً 48 دن اس سیل میں گزارے، جس کے بعد انھیں جیل کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ سابق میونسپل ڈپٹی جن کی عمر 62 برس ہے، انھیں ایک اور نئے مقدمے کا سامنا ہے جس میں ان پر دہشت گردی کے الزامات ہیں۔ لہذا عدالتی کارروائی سے قبل آج کل وہ ایک حراستی مرکز میں ہیں۔ولادیمیر کارا مرزا، جنھیں غداری کے مقدمے میں 25 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، انھیں بھی گذشتہ سال ستمبر سے ایسے ہی سیل نما کمرے میں رکھا گیا ہے۔الیا یاشین جنھیں فوجیوں کی جاسوسی کے مقدمے میں ساڑھے آٹھ سال کی سزا سنائی گئی ہے، پہلے انھیں ایسی بیرکوں میں رکھا گیا تھا جہاں ان پر سختی برتی جاتی۔ تاہم آج کل انھیں بھی ایک تنگ و تاریک سیل میں قید کیا گیا ہے۔اس طرح کی ’قید تنہائی‘ کے اقدامات فیڈرل پنیٹینٹری سروس (ایف ایس آئی این) کی طرف سے باقاعدگی سے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ ایک قیدی کو دوسرے قیدیوں کے ساتھ ساتھ خاندان اور دوستوں سے بھی زیادہ سے زیادہ الگ تھلگ کیا جا سکے۔اس حکمت عملی کو سیاستدان الیکسی ناوالنی پر پہلے ہی آزمایا جا چکا ہے اور وہ 16 فروری کو قطبِ شمالی میں روس کی ایک جیل نما کالونی میں وفات پا گئے تھے۔
ان جیلوں پر زیادہ تر سیاسی قیدی ہوتے ہیں
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہائی سکیورٹی کنڈیشنز (ایس یو ایس)
جب کسی قیدی کو ہائی سکیورٹی کنڈیشنز (ایس یو ایس) جیل میں منتقل کیا جاتا ہے تو وہاں اس پر اضافی پابندیاں لاگو کی جاتی ہیں (انھیں کم سے کم رقم خرچ کرنے کی اجازت ہوتی ہے، وہ کم سے کم ڈاک وصول کر سکتے ہیں، ان سے ملنے کے لیے آنے والوں کی تعداد بھی کم کر دی جاتی ہے۔)قیدی کو 40-60 افراد کے لیے ایک عام بیرک سے الگ کمرے میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اس کمرے میں عام طور پر پانچ سے دس قیدی موجود ہو سکتے ہیں لیکن اس تعداد کا انحصار اس پر ہے کہ اس سیل کی قیادت کون کر رہا ہے اور ان کی پالیسی کیا ہے۔مثال کے طور پر سیاستدان آندرے پیوواروف جو ایک ’ناپسندیدہ تنظیم‘ کے ساتھ تعاون کرنے کے مقدمے میں سزا یافتہ ہیں، انھوں نے گذشتہ مئی میں کہا تھا کہ وہ ایس یو ایس بیرکوں میں اکیلے تھے۔انھوں نے لکھا تھا کہ ’میں دوسرے قیدیوں کے ساتھ بات چیت نہیں کر سکتا تھا۔ تاہم یہ حیرت کی بات ہے کہ پورے سیل میں ایک بھی اور ایسا شخص موجود نہیں تھا جو میری طرح سخت سزا کاٹ رہا ہو اور اسے میرے ساتھ قید کیا جا سکے۔ چند ماہ بعد بیرک میں ایک اور شخص نمودار ہوا۔‘بریوکوف بتاتے ہیں کہ سخت حراستی مرکز میں قیدِ تنہائی میں رہنے والے قیدی کو بہت کم لوگوں سے رابطوں کی اجازت ہوتی ہے۔‘
پی کے ٹی یا کریتکا ’جیل کے اندر ایک جیل‘
جیل کا سخت ترین حصہ ’شیزو جیل‘
اس جیل میں سب سے سخت سزا پانے والے قیدیوں کے لیے شیزو جیل یا ’سزا کا سیل‘ مختص ہے۔میخائل بریوکوف کہتے ہیں کہ ’اس سیل میں ہر چیز ممنوع ہے: ٹیلی فون پر بات چیت، پارسل، ملاقاتیں۔۔۔ آپ کو صرف بیت الخلا میں استعمال ہونے والا سامان، چپل اور ایک تولیے کی اجازت ہے۔آپ کیا پڑھ سکتے ہیں اور کیا نہیں اس حوالے سے بھی پابندیاں عائد ہیں اور صرف مذہبی مواد والی کتابیں ہی پڑھنے کو دی جاتی ہیں۔‘ ایسے سیل میں صرف ایک یا دو قیدیوں کو 15 دن سے زیادہ دنوں کی مدت کے لیے رکھا جا سکتا ہے۔تاہم حکومت مخالف سیاست دانوں کی بات آئے تو عام طور پر قیدی کی سزا ختم ہونے کے فوراً بعد نئی سزا سنا دی جاتی ہے اور کسی قسم کی نرمی نہیں برتی جاتی ہے۔مثال کے طور پر ولادیمیر کارا مرزا کے معاملے میں سزا کے سیل اور پی کے ٹی میں کوئی فرق نہیں ہے۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ’دراصل سزا کا سیل اور پی کے ٹی ایک ہی سیل ہیں، صرف کبھی کبھار اسے پی کے ٹی سیل کہا جاتا ہے۔ عام حالات میں اسے سزا کا سیل کہا جاتا ہے مگر جب یہ سیل پے کے ٹی ہوتا ہے تو یہاں پلنگ کے ساتھ ایک میز لا کر رکھ دی جاتی ہے اور قیدی کو ایک اضافی کتاب رکھنے اور زیادہ دیر چہل قدمی کا وقت دیا جاتا ہے۔‘’جب اس سیل کو سزا کا سیل قرار دیا جاتا ہے تو قیدی کے نارنجی یونیفارم کو کالے رنگ میں بدل دیا جاتا ہے اور پلنگ کے ساتھ والی میز واپس لے لی جاتی ہے۔ ‘’اہم نقطہ یہ ہے کہ قیدی کو یہاں لانے کے بعد سے قیدِ تنہائی میں رکھا جاتا ہے، اسے کسی دوسرے قیدی سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔‘انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ قیدی صرف فیڈرل پینٹینٹری سروس کے ملازمین اور وکلا کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں اور یہ اذیت ناک صورتحال ہے۔کارا مرزا کی اہلیہ نے نووایا گیزیٹا کو بتایا کہ گذشتہ موسم گرما میں انھیں اپنے شوہر سے صرف ایک بار فون پر بات کرنے کی اجازت ملی۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب دسمبر 2023 میں انھوں نے جیل سے بچوں سے بات کرنے کے لیے فون کیا تو میں نے ہی فون اٹھایا، لیکن تینوں بچوں کو والد سے بات کرنی تھی اور مجھے موقع نہیں مل سکا۔ 15 منٹ کو تین بچوں کے درمیان پانچ پانچ منٹ میں تقسیم کیا گیا اور یہ کال چھ ماہ میں پہلی بار آئی تھی۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
قید تنہائی اور ایک تنگ کوارٹر
سب سے سخت قیدِ تنہائی ای پی سی ٹی کے قیدیوں کے حصے میں آتی ہے۔ یہ ایک تنگ کمرہ ہے۔میخائل بریوکوف کہتے ہیں کہ ’دراصل جیل کا نظام ہی ایسا ہے کہ تمام جیلوں میں سنگل سیل نما کمرے موجود نہیں ہیں۔ اسی لیے وسطی علاقوں سے حراست میں لیے گئے قیدیوں کو ولادیمیر بھیجا جاتا ہے۔ ناوالنی کو بھی یہیں بھیجا گیا تھا۔‘ای پی سی ٹی میں قیدیوں کو ایک سال تک قیدِ تنہائی میں رکھا جا سکتا ہے۔انسانی حقوق کی کارکن ایوجینیا کولاکوا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حراستی شرائط کے مطابق ای پی سی ٹی جیل بھی پی کے ٹی جیل سے ملتی جلتی ہے۔ تاہم فرق صرف یہ ہے کہ پی سی ٹی سیل ہر جیل میں موجود ہے، اور انتہائی بدنامِ زمانہ قیدیوں کے لیے بنایا گیا ای پی کے ٹی صرف ایک یا دو جیلوں میں ہی ہے۔ اسی لیے ایسی جیل میں قیدی کو رکھنے کے لیے سب سے پہلے اسے وہاں منتقل کیا جاتا ہے۔‘ولادیمیر کارا مرزا نے خود کو ای پی سی ٹی جیل بھیجے جانے کے متعلق لکھا کہ ’یہ ایسے ہی کہ جیسے مصنف سولزینٹسن نے اپنی کتاب ’ان دی فرسٹ سرکل‘ میں تصوراتی مشقت کی ہولناکیوں کو بیان کیا ہے یا جیسے دوستووسکی نے ’نوٹس فرام اے ڈیڈ ہاؤس‘ میں لکھا ہے۔۔۔ کیونکہ 19ویں صدی میں قیدی ہر وقت ایک ہی جگہ رہتے تھے، اس صورت میں وہ اس قید کی زندگی اور روزمرہ کی روٹین کے عادی ہو سکتے تھے، اسی لیے سوویت مسلسل آپ کو ایک سے دوسری جیل میں پٹختے رہتے ہیں۔‘انھوں نے ای پی سی ٹی جیل میں چار ماہ گزارے لیکن سابقہ جیل میں واپس آنے پر انھیں دوبارہ سخت سزا کے لیے مختص سیل میں قید رکھا گیا اور اب اعلان کیا گیا ہے کہ انھیں چھ ماہ کے لیے دوبارہ ای پی سی ٹی جیل بھیج دیا جائے گا۔وکلا کو خدشہ ہے کہ اس کے بعد انھیں دوبارہ کسی اور جیل کے قید تنہائی والے سیل بھیجا جا سکتا ہے۔الیکسی ناوالنی کی طرح، الیا یاشین اور ولادیمیر کارا مرزا خود پر عائد جرمانے اور انھیں قیدِ تنہائی میں بھیجنے کے فیصلوں کو باقاعدگی سے چیلنج کرتے رہتے ہیں تاہم عدالتیں تمام شکایات کو مسترد کر دیتی ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.