روس کو یوکرین میں جنگ کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے؟
- سیسیلیا باریا
- بی بی سی نیوز، منڈو
اخراجات کے تخمینے مختلف ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے اس جنگ سے روس کی معیشت 7 سے 15 فیصد تک سکڑ سکتی ہے
جب چیزیں منصوبے کے مطابق نہیں ہوتی تو جنگیں ان کو شروع کرنے والوں کے ہاتھ سے آسانی سے نکل سکتی ہیں۔
اگرچہ یہ جاننا ناممکن ہے کہ 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کرتے وقت ولادیمیر پوتن کے ذھن میں کیا تھا لیکن زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ چند دن میں تیزی سے فتح کی توقع کر رہے تھے۔
امریکی فوجی تجزیہ کاروں بینجمن جانسن، ٹائسن ویٹزل اور جے بی بارانکو کے مطابق ایک ماہ بعد یہ جنگ اب خطے میں عدم استحکام کی جنگ میں تبدیل ہو گئی ہے، جس میں روس یوکرین کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے وحشیانہ حربے استعمال کر رہا ہے۔
اٹلانٹک کونسل کے لیے لکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اندازہ لگاتے ہیں کہ روس ممکنہ طور پر جنگ بندی کی جانب بڑھے جائے گا، یوکرین کی سپلائی روک دے گا، اُس کی بحیرہ اسود تک رسائی روک دے گا اور آخر کار ایک قحط کو جنم دے گا کیونکہ یوکرینی کسان اس وقت اپنی فصلوں کو سنبھالنے سے قاصر ہیں‘ لیکن یہ طویل جنگ روس کے لیے کتنی مہنگی ثابت ہو گی؟
’جنگ ایک مہنگی مہم جوئی ہوتی ہے‘
برطانیہ کے تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ (RUSI) میں یورپی سکیورٹی کے ریسرچ فیلو ایڈ آرنلڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’فوجی کارروائیوں کو برقرار رکھنا ایک انتہائی مہنگا کام ہے خاص طور پر جب آپ کی فوجیں اپنے مرکزی اڈوں سے دور ہوں۔‘
’آپ کو جنگی مشین اور فوجیوں کو کھانا کھلانے کے لیے خوراک کی سپلائی کا انتظام کرنا ہوتا ہے، گولہ بارود اور ایندھن کی ایک بڑی مقدار کا ذخیرہ کرنا ہوتا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دوران جتنی تعداد میں روس کے ٹینک اور فوجی گاڑیاں ناکارہ ہوئی ہیں وہ یہ ظاہر کرتی ہیں انھیں سپلائز کا ایک سنگین مسئلہ درپیش ہے
اس وقت یوکرین کے ساتھ جنگ میں روسی لاجسٹکس کو مسائل درپیش ہیں اور ان کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں۔ سب سے واضح طور پر یہ کہ روسی فوجی گاڑیوں کو اس وسیع علاقے میں کسی نقص کے بعد وہیں میدان میں چھوڑ دیا گیا تھا۔
آرنلڈ کا کہنا ہے کہ ’وہ اس لیے تیار نہیں تھے کہ شاید ان کا خیال تھا کہ یہ آپریشن صرف دو دن تک جاری رہے گا۔‘
امریکی بحریہ کے ایک ریٹائرڈ ایڈمرل اور ٹفٹس یونیورسٹی میں سکول آف لا اینڈ ڈپلومیسی کے ڈین جیمز سٹاوریڈیس کہتے ہیں کہ روس کے خزانے خشک ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔
اگرچہ اس ملک کے پاس دنیا کے سب سے بڑے زرمبادلہ کے ذخائر (تقریباً 600 ارب ڈالر) ہیں لیکن اس رقم کا بڑا حصہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اب مغربی بینکوں میں بند ہے۔
یوکرین کے دارالحکومت کیو کی جانب جاتا ہوا روسی افواج کا ایک کارواں
روس کی جنگ کی قیمت کتنی؟
سینٹر فار اکنامک ریکوری کے مطابق اقتصادی ماہرین اور یوکرینی حکومت کے مشیروں کے ایک گروپ، حملے کے پہلے 23 دن میں روس کو براہ راست فوجی اخراجات میں کم از کم 19.9 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
انھوں نے اندازہ لگایا کہ کریملن کو تباہ شدہ فوجی ہارڈ ویئر میں 9 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
اس رقم میں کروز میزائل لانچ کرنے کی لاگت اور اگلے 40 سال میں ممکنہ مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے نقصان (انسانی عملے کے نقصانات کی بنیاد پر) شامل کرنا ضروری ہے۔
یوکرین نے 19 مارچ کو دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت تک جنگ میں 14 ہزار چار سو روسی فوجی مارے جا چکے ہیں۔
کل اخراجات میں انخلا، زخمی فوجیوں کے علاج، گولہ بارود، ایندھن، سپیئر پارٹس، فوجیوں کو کھانا کھلانے کے اخراجات بھی شامل کرنے کی ضرورت ہو گی۔
ان میں سے کسی بھی اندازے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ بی بی سی کے لیے مشاورت کرنے والے ماہرین غیر یقینی صورتحال کی نوعیت کی وجہ سے اپنے اندازوں میں محتاط تھے حالانکہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ جنگی مشین چلانا بہت مہنگا کام ہے۔
یوکرین کے ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ روس کے لیے اس جنگ کی قیمت اربوں ڈالروں تک پہنچ چکی ہے
روس کا پیسہ کب ختم ہو گا؟
اس کا اس بات پر انحصار ہے کہ مغربی اقتصادی پابندیاں کتنی مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ اس کا اس بات پر بھی انحصار ہے کہ آیا یورپی ممالک روسی گیس کی درآمد پر پابندی لگانے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک کافی بڑا چیلنج ہے کیونکہ روس یورپی یونین کی قدرتی گیس کی درآمدات کا تقریباً 40 فیصد فراہم کرتا ہے۔
یہ بھی واضح نہیں کہ آیا رقوم کی ترسیل کا عالمی ادارہ ’سوِفٹ‘ (SWIFT) ادائیگی کے نظام سے کئی روسی بینکوں کے اخراج کو، جو کہ بین الاقوامی رقم کی منتقلی کو قابل بناتا ہے، کو کتنا زیادہ توسیع دیتا ہے۔
اگر یہ ادارہ پابندیوں میں توسیع کرتا ہے تو اس سے پوتن کے پاس غیر ملکی کرنسی کی ادائیگیاں وصول کرنے کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں رہے گا۔
آخر میں روس کے وسائل کو کس حد تک پھیلایا جا سکتا ہے، اس کا انحصار اس کے اتحادیوں اور خاص طور پر ایک خاص اتحادی پر بھی ہے۔
اقتصادی پابندیوں کے بعد روس کی کرنسی روبل کی قدر بہت گر گئی ہے
چین کا عمل دخل
ماہرین نے اس جنگ پر اثرانداز ہونے کی چین کی صلاحیت کو بہت اہم قرار دیا ہے لیکن تجزیہ کاروں میں اس پر کوئی اتفاق رائے نہیں کہ وہ جنگ میں کیا کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
بیجنگ نے صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا لیکن وہ اس حملے کو محض ایک ’فوجی کارروائی‘ کے طور پر بیان کر رہا ہے اور نائب وزیر خارجہ لی یوچینگ نے مغربی پابندیاں کے بارے میں 19 مارچ کو کہا تھا کہ یہ ’اشتعال انگیز‘ ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ اقدامات یکطرفہ ہیں اور روسی شہریوں کو ’بغیر کسی وجہ کے‘ غیر ملکی اثاثوں سے محروم کر رہے ہیں۔
لی نے کہا کہ ’تاریخ نے بار بار ثابت کیا کہ پابندیاں مسائل کو حل نہیں کر سکتیں۔ پابندیاں صرف عام لوگوں کو نقصان پہنچائیں گی، اقتصادی اور مالیاتی نظام کو متاثر کریں گی اور عالمی معیشت کو مزید خراب کریں گی۔‘
یہ بھی پڑھیے
چین نے جنگ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن وہ اسے ایک فوجی کارروائی کہتا ہے
برطانیہ کی لنکاسٹر یونیورسٹی کے سینئر لیکچرار ریناؤڈ فوکارٹ کا استدلال ہے کہ چین طویل مدتی امکانات کے پیش نظر چین روس کے لیے ’سنگین‘ اور اہم ثابت ہو سکتا ہے۔
فوکارٹ کا کہنا ہے کہ ’اگر پابندیاں برقرار رہتی ہیں تو روس چین اور بیلاروس کے علاوہ اپنے اہم تجارتی شراکت داروں سے کٹ جائے گا۔‘
سپین میں ایک بزنس سکول کے پروفیسر میکسم میرونوف کہتے ہیں کہ اس انحصار کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چین روس سے بہت کم قیمت پر وسائل خریدے گا اور روس کو زیادہ قیمت پر مصنوعات فروخت کرے گا۔‘
’چین روس کو اپنی کالونی سمجھے گا۔ چین اس جنگ میں واحد فاتح ہونے والا ہے۔‘
چین کے نائب وزیرِ خارجہ نے مغربی ممالک کی پابندیوں کو یکطرفہ اور جارحانہ قرار دیا اور کہا کہ یہ عام روسیوں کو سزا دینے کے مترادف ہے۔
معیشت سنگین گراوٹ کا شکار
ماسکو کا اصرار ہے کہ مغربی پابندیاں روس جیسے بڑے ملک کو تنہا نہیں کر سکتیں۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے 5 مارچ کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’دنیا یورپ اور امریکہ کے لیے اتنی بڑی ہے کہ وہ کسی ملک کو الگ تھلگ کر دے، خاص کر روس جیسی بڑی ریاست کو۔‘
لیکن روسی کرنسی روبل کی قدر گر گئی ہے، سٹاک مارکیٹ بڑی حد تک بند پڑی ہے، افراط زر پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور شرح سود دوگنی ہو گئی ہے۔ 400 سے زائد غیر ملکی کمپنیاں ملک چھوڑ چکی ہیں۔
کچھ اندازے بتاتے ہیں کہ اس سال اور خدشہ ہے کہ روسی حکومت اپنے قرضوں میں ڈیفالٹ کر سکتی ہے۔
پابندیوں کے باوجود روس کا اصرار ہے کہ اُسے دنیا میں تنہا نہیں کیا جا سکتا
میرونوف کہتے ہیں کہ ’روسی صنعت ٹھپ ہو رہی ہے۔‘
فوکارٹ کا کہنا ہے کہ دو عوامل بڑے پیمانے پر اس بات کا تعین کریں گے کہ آیا آنے والے ہفتوں میں پوتِن کے لیے جنگ کی قیمت بہت زیادہ ہو جائے گی یا نہیں۔
پہلا یہ کہ کیا روس کی فوجی اور دفاعی صنعت مغرب سے تکنیکی درآمدات کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے اور دوسرا یہ کہ اگر پابندیوں کا اثر کریملن میں اس شخص (پوتِن) کے خلاف ملک کے اندر عوامی رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لیے کافی ہو گا یا نہیں۔
Comments are closed.